سورۃ الاحزاب (33): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ahzaab کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأحزاب کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الاحزاب کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ahzaab
سُورَةُ الأَحۡزَابِ
صفحہ 420 (آیات 16 سے 22 تک)

قُل لَّن يَنفَعَكُمُ ٱلْفِرَارُ إِن فَرَرْتُم مِّنَ ٱلْمَوْتِ أَوِ ٱلْقَتْلِ وَإِذًا لَّا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا قُلْ مَن ذَا ٱلَّذِى يَعْصِمُكُم مِّنَ ٱللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوٓءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ۚ وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ۞ قَدْ يَعْلَمُ ٱللَّهُ ٱلْمُعَوِّقِينَ مِنكُمْ وَٱلْقَآئِلِينَ لِإِخْوَٰنِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا ۖ وَلَا يَأْتُونَ ٱلْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَآءَ ٱلْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَٱلَّذِى يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ ٱلْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ ٱلْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى ٱلْخَيْرِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا۟ فَأَحْبَطَ ٱللَّهُ أَعْمَٰلَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرًا يَحْسَبُونَ ٱلْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا۟ ۖ وَإِن يَأْتِ ٱلْأَحْزَابُ يَوَدُّوا۟ لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِى ٱلْأَعْرَابِ يَسْـَٔلُونَ عَنْ أَنۢبَآئِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا۟ فِيكُم مَّا قَٰتَلُوٓا۟ إِلَّا قَلِيلًا لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلْيَوْمَ ٱلْءَاخِرَ وَذَكَرَ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَلَمَّا رَءَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْأَحْزَابَ قَالُوا۟ هَٰذَا مَا وَعَدَنَا ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَصَدَقَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّآ إِيمَٰنًا وَتَسْلِيمًا
420

سورۃ الاحزاب کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الاحزاب کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ! ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہو گا اس کے بعد زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul lan yanfaAAakumu alfiraru in farartum mina almawti awi alqatli waithan la tumattaAAoona illa qaleelan

قل لن ینفعکم ۔۔۔۔۔۔ ولیا ولا نصیرا (16 – 17)

حقیقت یہ ہے کہ تمام واقعات اللہ کے نظام قضا و قدر کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ نظام قضا و قدر ان واقعات و نتائج کو آگے بڑھاتا جاتا ہے اور ہر معاملہ اس نظام کے مطابق انجام کو پہنچتا ہے۔ موت اور قتل ایک تقدیر ہے ، اس سے تو کوئی قرار ممکن نہیں ہے ۔ یہ وقت پر آتی ہے۔ ایک لحظہ پہلے اور بعد میں نہیں آتی۔ فرار کی وجہ سے موت موخر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی جنگ سے بھاگ گیا تو اپنی موت مرجائے گا جس کا وقت بہت قریب ہے۔ دنیا کا تو ہر عرصہ قریب ہی ہے۔ نیز دنیا کا ہر سازوسامان بھی قلیل ہوتا ہے۔ بچانے والا کوئی نہیں ہے صرف یہ کہ اللہ کی مشیت کسی کی موت کی راہ میں حائل ہوجائے۔ یہ اللہ ہی ہے جو کسی کے بارے میں برائی کا فیصلہ کرتا ہے اور کسی کے بارے میں اچھائی کا فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی والی اور مددگار نہیں ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو کسی کو تقدیر الٰہی سے بچالے۔ لہٰذا سپردگی ، سپردگی ہے ، اطاعت ، اطاعت ہے ، وفا ، وفا ہے ، خواہ وہ سہولیات کے دور میں ہو یا مشکلات کے دور میں۔ تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ پر توکل کرنا چاہئے۔ وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے۔

اب بات کا رخ ان لوگوں کی طرف مڑ جاتا ہے جو جنگ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں جو جہاد سے لاپرواہ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں۔

لا مقام لکم فارجعوا (33: 13) ” تمہارے ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ، لوٹ جاؤ “۔ اور ان کی عجیب تصویر یہاں کھینچی جاتی ہے۔ یہ تصویر سچی تصویر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین کارٹون ہے اور اس قسم کے لوگ ہر دور میں پائے جاتے ہیں ، بزدل ، پیچھے ہٹنے والے ، بہت چیخنے اور چلانے والے ، شدید حالات میں جزع و گزع کرنے والے اور پر امن حالات میں تیز و طرار بات کرنے والے ، ہر بھلائی کے معاملے میں کنجوس ، جدوجہد سے فراری۔ اگر ذرا بھی ڈر کا خطرہ ہو ، اگرچہ دور ہو تو ایک دم مضطرب ہونے والے۔ قرآن کا انداز تعبیر ایسا دلکش ہے کہ اس تصویر کے کسی رنگ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ ذرا خود قرآنی رنگ میں پڑھئے :

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے؟ اللہ کے مقابلے میں تو یہ لوگ کوئی حامی و مدد گار نہیں پا سکتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul man tha allathee yaAAsimukum mina Allahi in arada bikum sooan aw arada bikum rahmatan wala yajidoona lahum min dooni Allahi waliyyan wala naseeran

اردو ترجمہ

اللہ تم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جنگ کے کام میں) رکاوٹیں ڈالنے والے ہیں، جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ "آؤ ہماری طرف" جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنانے کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad yaAAlamu Allahu almuAAawwiqeena minkum waalqaileena liikhwanihim halumma ilayna wala yatoona albasa illa qaleelan

قد یعلم اللہ المعوقین ۔۔۔۔۔۔ ما قتلوا الا قلیلا (18 – 20) ” “۔ جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنا نے کو ، جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں۔ خطرے کا وقت آجائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہے ، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آجاتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے ، اس لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دئیے۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ پھر حملہ آور ہوجائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں۔ تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے “۔

آغاز یوں ہوتا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو لوگوں کو جنگ سے روکتے ہیں اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ جو اپنے بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ جنگ میں شرکت نہ کریں ، گھروں میں بیٹھے رہیں۔

ولا یاتون الباس الا قلیلا (33: 18) ” “۔ یہ جہاد میں محض دکھا دے اور نام داخل کرنے کے لیے شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ معلوم لوگ ہیں اور ان کی مکاریاں بھی معلوم ہیں۔ اب اللہ اپنے معجزانہ قلم ان کے اور ان جیسے لوگوں کے خدوخال سے بڑی خوبصورتی سے رقم فرماتے ہیں :

اردو ترجمہ

جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے، اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دیے اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ashihhatan AAalaykum faitha jaa alkhawfu raaytahum yanthuroona ilayka tadooru aAAyunuhum kaallathee yughsha AAalayhi mina almawti faitha thahaba alkhawfu salaqookum bialsinatin hidadin ashihhatan AAala alkhayri olaika lam yuminoo faahbata Allahu aAAmalahum wakana thalika AAala Allahi yaseeran

اشحۃ علیکم (33: 19) ” “۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض اور دشمنی بھری ہوئی ہے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں بھی بخیل ہیں ، مالی امداد میں بھی بخیل ہیں اور اچھی نیت اور اچھی خواہشات میں بھی بخیل ہیں۔

فاذا جآء الخوف ۔۔۔۔۔ علیہ من لموت (33: 19) ” “۔ یہ ایک واضح تصویر ہے جس کے خدوخال واضح ہیں ، جس کے اعضاء متحرک ہیں ، لیکن ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ تصویر مضحکہ انگیز ہے۔ اس سے ان کی بزدلی ٹپکتی پڑتی ہے۔ اس قدر بزدل کہ مارے خوف کے ان کے اعضاء کانپ رہے ہیں اور ان کے پورے جسم پر رعشہ طاری ہے۔ لیکن جب خوف چلا جاتا ہے تو ان کی تصویر زیادہ مضحکہ انگیز ہوجاتی ہے۔

فاذا ذھب الخوف سلقوکم بالسنۃ حداد (33: 19) ” “۔ یہ سوراخوں سے نکل آتے ہیں ، ان کے آوازیں بلند ہوجاتی ہیں حالانکہ پہلے ان پر رعشہ طاری تھا۔ ان کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں۔ پہلے تو سکڑ گئے تھے ، اب پھول گئے اور بغیر شرم و حیاء کے لمبے لمبے دعوے کرنے لگے کہ ہم نے یہ یہ مشقتیں برداشت کیں۔ یہ یہ جنگیں کیں اور یہ یہ فضائل اعمال کیے اور اس قدر شجاعت اور بہادری دکھائی۔ ۔۔ اور پھر یہ لوگ۔

اشحۃ علی الخیر (33: 19) ” “۔ یہ کسی بھلائی کے کام میں کچھ خرچ نہیں کرتے۔ نہ اپنی قوت ، نہ اپنا عمل ، نہ اپنی دولت اور نہ اپنی جان ۔۔۔ حالانکہ وہ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔ ان کی زبان تیز ہے اور اپنے آپ کو بہت ہی بڑا سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ کسی ایک قوم قبیلے تک محدود نہیں ہیں۔ یہ ہمیشہ ہر معاشرے میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ بڑے بہادر ، فصیح اللسان اور چیلنج کرنے والے ہوتے ہیں بشرطیکہ وہاں امن ہو۔ اور اگر خوف اور شدید خطرہ ہو تو یہ بخیل ، بزدل ، خاموش اور پیچھے پیچھے رہنے والے۔ یہ لوگ ہر بھلائی اور ہر خیر کے معاملے میں بہت ہی بخیل ہوتے ہیں بس زبانی کلامی یہ ہر کام میں حصہ لیتے ہیں۔

اولئک لم یومنوا فاحبط اللہ اعمالھم (33: 19) ” “۔ ان کی منافقت کا پہلا سبب یہ ہے کہ ایمان ان کے دلوں ہی میں نہیں اترا اور ایمان کی روشنی میں انہوں نے اپنا راستہ تلاش کیا۔ نہ یہ لوگ ایمان کے طریقوں پر چلنے والے ہیں ۔ اس لیے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ہیں اور یہ کامیاب نہیں کیونکہ کامیابی کا اصلی مواد ہی ان کے پاس نہیں ہے۔

وکان ذلک علی اللہ یسیرا (33: 19) ” “۔ اللہ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ، بس سمجھ لو کہ ان کے اعمال ضائع ہوگئے۔ رہا یہ کہ یوم الاحزاب میں ان کی حالت کیا تھی اور ان کی سوچ کیا تھی۔

اردو ترجمہ

یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ آور ہو جائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اُس موقع پر یہ کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yahsaboona alahzaba lam yathhaboo wain yati alahzabu yawaddoo law annahum badoona fee alaAArabi yasaloona AAan anbaikum walaw kanoo feekum ma qataloo illa qaleelan

یحسبون الاحزاب لم یذھبوا (33: 20) ” “۔ گویا یہ لوگ ابھی تک کانپ رہے ہیں ، ابھی تک جنگ سے چھپ رہے ہیں ، لوگوں کو روک رہے ہیں ، ان کو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ احزاب تو بھاگ گئے ہیں اور خوف ختم ہوگیا ہے اور امن وامان لوٹ آیا ہے۔

وان یات الاحزاب ۔۔۔۔۔ عن انبآئکم (33: 20) ” “۔ کیا سنجیدہ مزاح ہے ان کے ساتھ اور کس قدر بھونڈی تصویر ہے ان لوگوں کی۔ یوں جس طرح کارٹون ۔ اگر دوبارہ احزاب حملہ آور ہوں تو یہ لوگ چاہیں گے کہ یہ اہل مدینہ ہی نہ ہوں اور دور کہیں بدو باشندے ہوجائیں اور مدینہ والوں کی زندگی اور ذمہ داریوں میں شریک ہی نہ ہوں۔ ان کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ اس کے بارے میں ان کو پتہ ہی نہ ہو اور دوسروں سے اہل مدینہ کے حالات اس طرح پوچھیں جس طرح اجنبی ، اجنبی کے بارے میں پوچھتا ہے اور ان کو اہل مدینہ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے اور یہ بزدل جان بچا کر نکل آتے ہیں۔ یہ لوگ ایسی مضحکہ خیز تمنائیں کرتے ہیں ، یہ معرکے سے دور ہیں اور اس معرکے میں ذاتی طور پر شریک نہیں ہیں نہ براہ راست یہ لوگ اس معاملے کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ دور سے بھی ڈرتے ہیں اور اس قدر بعید ہوکر بھی جزع و فزع کرتے ہیں۔

ولو کانوا فیکم ما قتلوا الا قلیلا (33: 20) ” “۔ یہ آخری لائن ہے جس کے کھینچنے سے یہ تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ یہ ہے تصویر ان منافقین کی جو مدینہ طیبہ میں اٹھنے والی اس نئی اسلامی جماعت کے اندر رہتے تھے۔ ایسے ہی لوگ قیامت تک اٹھنے والی ہر تحریک میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہی ہر دور کے منافقین کے خدوخال ہوتے ہیں۔ یہ تصویر یہاں ختم ہوتی ہے اور اہل ایمان کے دل میں ان کی تحقیر ، ان سے نفرت اور ان سے دوری اچھی طرح بٹھا دی جاتی ہے اور یہ لوگ اللہ کے ہاں بھی ہلکے ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی نظروں میں بھی گر جاتے ہیں۔

یہ تو تھا حال ان لوگوں کا جو منافق تھے۔ جن کے دلوں میں روگ تھا ، جو اسلامی صفوں میں بددلی پھیلاتے تھے۔ یہ تھی ان کی مکروہ تصویر ، لیکن جنگ احزاب کے شدید اور ہلا مارنے والے خوف اور بدتر حالات نے تمام لوگوں کو اس طرح مکروہ الصورت نہ بنا دیا تھا۔ ان تاریک اور کربناک حالات میں کچھ روشن چہرے بھی موجود تھے۔ ان ہلا مارنے والے حالات میں ایسے لوگ بھی تھے جو چٹان کی طرح مضبوط کھڑے تھے۔ جن کا اپنے اللہ پر پورا بھروسہ تھا۔ اللہ کے فیصلوں پر راضی تھے۔ ان کو یقین تھا کہ اللہ کی نصرت آئے گی باوجود اس کے کہ بظاہر حالات بہت ہی مایوس کن تھے اور ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔

اردو ترجمہ

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad kana lakum fee rasooli Allahi oswatun hasanatun liman kana yarjoo Allaha waalyawma alakhira wathakara Allaha katheeran

اب قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کو بطور نمونہ پیش کرکے ان روشن چہروں کے البم کا آغاز کرتا ہے اور دیکھئے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو۔

لقد کان لکم ۔۔۔۔۔۔ وذکر اللہ کثیرا (31) ” “۔

اس خوفناک ڈر ، اور جان لیوا حالات کے باوجود رسول اللہ ﷺ لوگوں کے لیے امن و اطمینان کا سرچشمہ تھے اور آپ ﷺ کی ذات و ثوق ، اطمینان اور امیدوں کا سرچشمہ تھی۔ اس مشکل وقت میں رسول اللہ ﷺ نے جو کردار ادا کیا وہ دراصل تمام تحریکات اسلامی کے قائدین کے لیے مثال اور نمونہ ہے۔ ان تمام لوگوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے جو صاف رضائے الٰہی اور یوم آخرت کے لیے کام کرتے ہیں اور جو اپنے آپ کو بہترین قائد ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جو ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہیں اور کبھی بھی اللہ کو نہیں بھولتے۔ ہمیں چاہئے کہ حضور اکرم ﷺ نے اس جنگ میں جو موقف فرمایا اس کی کچھ جھلکیاں یہاں سے دیں۔ پوری تفصیلات تو یہاں دینا ممکن ہی نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے اور عام مسلمانوں کے ساتھ خندق کھودنے لگے۔ آپ کدال سے زمین کھودتے اور بیلچے سے مٹی جمع فرماتے اور پھر ٹوکری میں بھر کر کناروں پر ڈالتے۔ کام کرنے والے جو رجز پڑھتے آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہوتے۔ یہ لوگ اونچی آواز سے رجز پڑھتے ، رجز کے آخری لفظ کو دہراتے۔ وہ لوگ سادہ قسم کے ترانے گاتے تھے جن کا تعلق اس وقت کے واقعات سے ہوتا تھا۔ ایک شخص تھا جس کا نام جعیل تھا۔ حضور اکرم ﷺ کو یہ نام اچھا نہ لگا تو آپ ﷺ نے اس کا نام بدل کر عمرو رکھ دیا۔ اب مسلمانوں نے اس کے ساتھ رجز بنایا ، بہت ہی سادہ :

سماہ من بعد جعیل عمرا وکان للبائس یوما ظھرا

جب مسلمان یہ رجز پڑھتے اور ” عمرا “ کہتے تو رسول اللہ ﷺ بھی جواب میں ” عمرا “ فرماتے اور جب وہ دوسرے فقرے میں لفظ ” ظہرا “ پڑھتے تو آپ ﷺ بھی ان کے جواب میں ظہرا دہراتے۔ اب ذرا اس فضا کے بارے میں سوچئے اور اس جوش و خروش کا تصور کیجئے کہ حضور اکرم ﷺ رجز کے ساتھ مقطع دہراتے ہیں۔ ” عمرا “ اور ” ظہرا “۔ اور ساتھ ساتھ کدال بھی مار رہے ہیں۔ بیلچے سے مٹی بھی جمع کر رہے ہیں اور پھر ٹوکری میں مٹی اٹھا کر بھی لے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ رجز کا جواب بھی دے رہے ہیں۔ یہ طرز عمل ان لوگوں کے جسم کے رونگٹے رونگٹے کو قوت سے بھر رہا ہوگا۔ ان کی ارواح کا پیمانہ کس قوت و شجاعت سے لبریز ہوگا اور کس قدر جرأت ، شجاعت اور اعتماد اور اعزار ان کو حاصل ہو رہا ہوگا۔

زید ابن ثابت مٹی لے جا رہے تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ ایک بہترین نوجوان ہے۔ اسے نیند آگئی اور خندق ہی میں سوگیا۔ بہت سردی ۔۔۔۔ حضرت عمارہ ابن جزم نے ان کا اسلحہ چپکے سے لے لیا ، اسے پتہ بھی نہ چلا۔ آنکھ کھلی تو اسلحہ ندارد۔ یہ پریشان ہوگئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اے ابو اماد (زیادہ سونے والے کے باپ) تم اس قدر سو گئے کہ اسلحہ ہی چلا گیا “ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اسے دے دو اور اس کے بعد حکم دیا کہ مسلمان کی کوئی چیز بطور مزاح بھی نہ چھپاؤ۔ یہ واقعہ بھی بتاتا ہے کہ اسلامی صفوں میں جو لوگ تھے وہ بیدار مغز اور بیدار چشم تھے اور حضور ﷺ کی نظر ہر کسی پر تھی ، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سنجیدہ مزاح اور خوش مزاجی ان مشکل حالات میں بھی قائد انقلاب کے ساتھ تھے۔ ” اے سونے والے کے باپ ، تم سو گئے اور اسلحہ چلا گیا “۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کن حالات میں تھے اور وہ نبی ﷺ کے کس قدر قریب تھے۔

آپ ﷺ کی روح دور دور تک اسلامی انقلاب کے نقوش دیکھ رہی تھی ۔ پتھروں کی چمک میں بھی اللہ آپ ﷺ کو اسلامی انقلاب کی وسعتوں کو دکھاتے تھے۔ پہلے دن سے آپ ﷺ نے خوشخبری سنائی تھی کہ قیصروکسریٰ کے خزانے تمہارے ہاتھ آئیں گے۔ لیکن جنگ احزاب جیسے مایوس کن حالات میں بھی جب کدال کی ضرب سے پتھر سے چمک نکلتی تو اس سے بھی حضور ﷺ کو مستقبل کا نقشہ بتا دیا جاتا اور آپ ﷺ فورا مسلمانوں کو بتا دیتے اور اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں یقین اور امید کے چشمے پھوٹ نکلتے۔

ابن اسحاق لکھتے ہیں۔ سلمان فارسی کی یہ روایت مجھ تک پہنچی ہے کہ میں خندق کا ایک کونا کھود رہا تھا کہ ایک پتھر میرے لیے مشکل ہوگیا ۔ رسول اللہ اس وقت میرے قریب تھے ۔ آپ نے دیکھا کہ میں مسلسل وار کر رہا ہوں اور جگہ میرے لئے مشکل ہوگئی ہے۔ حضور ﷺ اترے اور میرے ہاتھ سے کدال لیا اور پتھر پر وار کیا۔ کدال کے نیچے سے ایک چمک اٹھی۔ پھر آپ ﷺ نے دوسری ضرب لگائی اور پھر پتھر سے ایک چمک اٹھی۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری ضرب لگائی اور پتھر سے پھر چمک اٹھی۔ کہتے ہیں میں نے پوچھا رسول خدا ﷺ یہ چمک کیسی تھی جو میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ جب مارتے ہیں تو کدال چمک اٹھتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (سلمان تو نے یہ دیکھ لیا ہے) میں نے کہا ہاں۔ پہلی چمک میں یہ بات دکھائی گئی کہ میرے لیے یمن فتح ہوگیا ہے۔ دوسری چمک میں یہ دکھایا گیا کہ اللہ نے میرے لیے شام اور مغرب کا علاقہ فتح کردیا اور تیسری چمک میں یہ بات تھی کہ اللہ نے میرے لیے مشرق کو فتح کرلیا ہے۔

مقریزی نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عمر ؓ کو پیش آیا اور اس وقت سلمان فارسی بھی موجود تھے۔ ہمارے لیے سبق اس بات میں یہ ہے کہ اس قسم کے خوفناک ماحول میں بھی مسلمانوں کے دل و دماغ اعتماد سے بھرپور تھے۔

ذرا وہ وقت بھی یاد کیجئے کہ حذیفہ ؓ شدید سردی میں دشمن کے کیمپ سے نکل آئے ہیں۔ ان کے پاس اطلاعات ہیں۔ وہ سردی سے کانپ رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک کی لمبی شال میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ حضور ﷺ نماز میں ہیں۔ اپنے رب کے ساتھ مناجات میں ہیں۔ آپ حضرت حذیفہ کو چھوڑ نہیں دیتے کہ وہ اس وقت تک کانپتے رہیں جب تک حضور ﷺ نماز سے فارغ نہیں ہوجاتے بلکہ آپ حذیفہ ؓ کو اپنے پاؤں ٹانگوں کے اندر دبا لیتے ہیں اور اپنی شال کا ایک کونہ ان پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ گرم ہوجائیں اور آپ ﷺ نماز جاری رکھتے ہیں۔ نماز ختم ہوتی ہے۔ حذیفہ آپ ﷺ کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور آپ ﷺ کو خوشخبری سناتے ہیں کیونکہ ۔۔۔۔۔ مبارک کہہ رہا تھا کہ آج کچھ ہونے والا ہے۔ حذیفہ اسے دیکھ کر آگئے۔

جہاں تک آپ ﷺ کی شجاعت ، ثابت قدمی اور اللہ پر بھروسے کا تعلق ہے تو وہ آپ کی سیرت سے عیاں ہیں اور اس پورے قصے سے بالکل عیاں ہیں۔ اور مشہور ہیں ، لہٰذا ہم یہاں تفصیلات نہیں دے سکتے۔ اللہ نے سچ کہا ” درحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ میں ایک بہترین نمونہ تھا ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے “

رسول اللہ ﷺ کے بعد اب ایک سچے مومن کی تصویر ملاحظہ ہو۔ جو اللہ پر پورا پورا بھروسہ رکھتا ہے اور پوری طرح مبمئن ہے۔ یہ تصویر روشن ، چمکدار اور خوبصورت ہے۔ دیکھے ہر قسم کے ہولناک حالات کے مقابلے میں یہ مومن ڈٹا ہوا ہے۔ خطرات میں کود پڑتا ہے۔ ایسے خطرناک حالات میں چٹان کی طرح ڈٹا ہے جن میں عام لوگوں پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور خطرہ جس قدر شدید ہوتا ہے اسے اسی قدر زیادہ اطمینان ، اللہ پر زیادہ بھروسہ اور خوشخبری کا یقین ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ "یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی" اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walamma raa almuminoona alahzaba qaloo hatha ma waAAadana Allahu warasooluhu wasadaqa Allahu warasooluhu wama zadahum illa eemanan watasleeman

ولما را المؤمنون ۔۔۔۔۔ ایمانا وتسلیما (23) ” “۔

اس جنگ میں مسلمان جس خوف سے دوچار ہوئے وہ اس قدر عظیم تھا ، اور اس غزوہ میں جو دکھ ان کو پہنچا اس قدر شدید تھا ، اور اس واقعہ میں وہ جس بےچینی کا شکار ہوئے ، وہ اس قدر سخت تھی کہ وہ ہلا مارے گئے اور قرآن نے اس کے لیے زلزالا شدیدا (33: 11) کا لفظ استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

ھنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا (33: 11) ” یہاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ ہلا مارے گئے “۔ یہ لوگ بہرحال انسان تھے اور انسان کی قوت برداشت بہرحال محدود ہوتی ہے ۔ اللہ بھی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ اگرچہ ان کو پورا پورا یقین تھا کہ آخری فتح ہماری ہی ہوگی۔ اور رسول اللہ نے ان کو بشارت بھی دے دی تھی اور یہ بشارت نہ صرف عرب بلکہ یمن ، شام اور مشرق و مغرب کی فتح کی تھی۔ لیکن ان حقائق کے باوجود موجودہ ہولناک حالات نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ مسلسل کرب اور خوف محسوس کرتے تھے۔

سلمان کن حالات میں تھے اور کس قدر سہمے ہوئے تھے ، اس کی تصویر حضرت حذیفہ ابن ایمان کی روایت سے بہت وضاحت سے معلوم ہوتی ہے ۔ اصحاب رسول ﷺ کی حالت کیا تھی اور ان کی اندرونی حالت کیا تھی۔ ” حضور ﷺ صحابہ ؓ سے کہتے ہیں کون ہے وہ شخص جو کھڑا ہو اور جائے اور دشمن کے لشکر کے اندر جاکر معلوم کرے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ اس کے لیے شرط ہے کہ وہ واپس آئے گا۔ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ اللہ اسے میرے ساتھ جنت میں رکھے “۔ باوجود اس کے کہ اس شخص کی واپسی کی بھی ضمانت ہے اور اس کے لیے جنت کی دعاء کی بھی ضمانت ہے ، لیکن کوئی بھی خود اٹھ کر نہیں آتا۔ اور حضور ﷺ تین بار دہراتے ہیں۔ آخر میں حضور ﷺ حضرت حذیفہ ؓ کا نام لے کر پکارتے ہیں اور حذیفہ ؓ بھی فرماتے ہیں کہ جب میرا نام لے لیا گیا تو اب میرے لیے جانے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ رسول ﷺ یہ موقف انتہائی خوف کی حالت ہی میں اختیار کرسکتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ان کی طاقت سے زیادہ تھی۔

لیکن اس زلزال شدید کے باوجود ، اور آنکھیں پتھرانے کے باوجود جان کی بےچینی کے باوجود ، ان لوگوں کا اللہ کے ساتھ ایک غیر منقطع تعلق تھا۔ وہ سنن الہیہ کو اس حد تک جانتے تھے کہ وہ کسی وقت بھی ان نظروں سے اوجھل نہ ہوتی تھیں اور ان کو سنن الہیہ پر غیر متزلزل بھروسہ تھا کہ اللہ کے یہ سنن ناقابل تغیر ہیں اور جب ان کے مطابق اسباب فراہم ہوں تو نتائج ضرور ان کے مطابق نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مومنین نے یہ سمجھ لیا کہ اس شدید خوف اور ہلا مارنے کے بعد اب نصرت قریب آگئی ہے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اللہ نے فرمایا ہے۔

ام حسبتم ان تدخلوا ۔۔۔۔۔ نصر اللہ قریب (حوالہ) ” کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے اور تم پر دہ حالات نہ آئیں گے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے۔ ان پر سختیاں آئیں ، مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے “۔ اور اب چونکہ وہ ہلا مارے گئے ہیں لہٰذا نصر الٰہی قریب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا : ” یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا

اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی تھی “۔ (اس واقعہ نے ان کے ایمان اور ۔۔۔ کو اور زیادہ کردیا) ۔

ھذا ما وعدنا اللہ ورسولہ (33: 22) ” یہ وہی چیز ہے جس کو اللہ اور رسول ﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا “۔ یہ خوف ، یہ بےچینی ، اور یہ کپکپی ، یہ تنگی وہ چیزیں ہیں جن پر ہم سے نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا نصرت آنے ہی والی ہے۔

وصدق اللہ ورسولہ (33: 22) ” اور اللہ اور رسول کی بات بالکل سچی تھی “۔ یعنی اللہ اور رسول نے نصرت الٰہی کی آمد کے لیے جو علامات رکھی تھیں ، وہ سچ تھیں اور اب وہ علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو بھی سچی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دل اللہ کی نصرت کے آنے پر مطمئن ہوگئے۔

وما زادھم الا ایمانا وتسلیما (33: 22) ” اس واقعہ نے ان کے ایمان اور سپردگی کو اور زیادہ کردیا “۔

بہرحال وہ انسان اور بشر تھے اور بشری جذبات سے وہ بھی پا نہ ہوسکتے تھے۔ بشری کمزوریاں ان کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھیں۔ ان سے شریعت کا مطالبہ یہ نہ تھا کہ وہ بشر سے زیادہ بوجھ اٹھائیں۔ دائرہ بشریت کے اندر ہی ان کو رہنا تھا۔ اور شریعت کی خصوصیات اور علامات کا ان کے اندر پایا جانا حکمت خداوندی تھا۔ اس لیے ان کو پیدا کیا گیا تھا تاکہ وہ بشر ہوتے ہوئے کام کریں اور بشریت کے علاوہ کوئی اور جنس نہ ہوں۔ نہ ملائکہ ہوں اور نہ شیاطین ہوں۔ نہ جانور ہوں اور نہ پتھر ہوں۔ وہ بشر تھے۔ اس لیے ان پر خوف بھی طاری ہوتا تھا اور انہیں پریشانی بھی لاحق ہوتی تھی اور تنگی بھی محسوس کرتے تھے۔ اگر خطرہ حد برداشت سے زیادہ ہوجاتا تو ان پر پکپ کی بھی طاری ہوتی تھی ۔ لیکن ان کمزوریوں کے باوجود مضبوط رسی سے ان کا ربط تھا۔ وہ اللہ سے باندھے ہوئے تھے اور اللہ ان کو گرنے سے بچا رہا تھا۔ ازسرنو امیدیں ان کے اندر پیدا فرماتا ہے اور نا امیدی سے ان کو بچاتا تھا۔ اس لیے وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک منفرد مثال تھے۔ ایسی مثال جس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس حقیقت کا ادراک کریں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ پوری انسانی تاریخ کے انسانوں میں ایک ایسا نمونہ بھی تھا اور کبھی بشریت اس معیار تک بھی پہنچی تھی۔ یہ بشر تھے ، فرشتے نہیں تھے ، ان میں کمزوریاں بھی تھیں اور قوت بھی تھی اور ان کا اعزاز اور معیار یہ ہے کہ انہوں نے بشریت کو اس قدر اونچے معیار تک پہنچا دیا یوں کہ دائرہ بشریت کے اندر رہتے ہوئے وہ اس قدر بلند معیار تک پہنچ گئے۔

جن ہم دیکھیں کہ ہمارے اندر کمزوری آگئی ہے یا ہمارے قدم متزلزل ہوگئے ہیں ، یا ہم ڈرگئے ہیں ، یا ہم پر تنگی کا وقت آگیا ہے۔ ہولناک اور خطرناک حالات سے دوچار ہوگئے ہیں تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں چیخ و پکار نہ شروع کردینا چاہئے کہ ہائے مارے گئے۔ لیکن ہمیں یہ موقف بھی نہ اختیار کرنا چاہئے کہ یہ کمزوریاں تو خیر القرون میں بھی تھیں اور یہ ہماری فطرت کا حصہ ہیں اور ہم بلکہ تمام انسانوں سے اچھے لوگوں میں بھی تھیں ، اس لیے کہ ایک مضبوط رسی بھی ہے ، یہ مضبوط رسی آسمان سے تعلق کی رسی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ پر بھروسہ کریں۔ اس کی رسی کو تھا میں اور اعتماد اور اطمینان کو واپس لوٹائیں اور ہمارے جب قدم متزلزل ہوجائیں تو ہم سمجھ لیں کہ اب اللہ کی نصرت آنے والی ہے تاکہ ہم ثابت قدم رہیں۔ ہمیں استقرار حاصل ہو اور نہایت ہی قوت سے ازسرنو راہ حق پر چل پڑیں۔

آغاز اسلام میں اللہ نے صحابہ کرام کی جو ٹیم تشکیل دی تھی اسے یہی توازن عطا کردیا گیا تھا۔ یہ ایک منفرد ٹیم تھی۔ اس ٹیم کی تعریف خود قرآن بار بار کرتا ہے کہ اس ٹیم نے کیا کیا کارنامے سر انجام دئیے ۔ کس طرح ثابت قدم رہے۔ ان میں سے بعض تو اللہ کے ہاں پہنچ گئے اور بعض انتظار میں ہیں۔

420