اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 84 قُلْ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا یاد رہے کہ سورة البقرۃ کی آیت 136 میں تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ یہی مضمون بیان ہوا ہے۔
آیت 86 کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ یعنی ان کے دل ایمان لے آئے تھے ‘ ان پر حقیقت منکشف ہوگئی تھی ‘ لیکن دنیوی مصلحتیں آڑے آگئیں اور زبان سے انکار کردیا۔ جیسے سورة النمل میں ہم پڑھیں گے : وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط آیت 14 انہوں نے ظلم اور تکبر کے مارے ان معجزات کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔وَشَہِدُوْآ اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ اہل کتاب جب آپس میں باتیں کرتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ واقعتا نبی آخر الزمان ہیں جو ہماری کتابوں میں بیان کردہ پیشینگوئیوں کا مصداق ہیں۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ علقمہ کے دو بیٹے ابوحارثہ اور کرز جب نجران سے مدینہ منورہ چلے آ رہے تھے تو راستے میں کرز کے گھوڑے کو کہیں ٹھوکر لگی تو اس نے کہا : تَعِسَ الْاَبْعَدُ ہلاک ہوجائے وہ دور والا یعنی جس کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ اس کا اشارہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف تھا۔ اس پر اس کے بڑے بھائی ابوحارثہ نے کہا بَلْ تَعِسَتْ اُمُّکَ بلکہ تیری ماں ہلاک ہوجائے ! اس نے کہا میرے بھائی ! تمہیں میری بات اس قدر بری کیوں لگی ؟ ابوحارثہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یقیناً وہ وہی نبی امی ہیں جس کے ہم منتظر تھے۔ کرز نے کہا : جب آپ یہ سب جانتے ہیں تو ان پر ایمان کیوں نہیں لے آتے ؟ ابوحارثہ کہنے لگا : ان بادشاہوں نے ہمیں بڑا مقام و مرتبہ عطا کر رکھا ہے ‘ اگر ہم ایمان لے آئے تو وہ ہم سے یہ سب کچھ چھین لیں گے۔ یہ لوگ سلطنت روما کے تحت تھے اور انہیں مصر کی حکومت کی طرف سے بڑی مراعات حاصل تھیں ‘ انہیں مال و دولت اور عزت و وجاہت حاصل تھی۔ ابھی یہ لوگ محمد عربی ﷺ سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو یہ حال تھا ‘ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں کئی روز گزارنے کے بعد مباہلہ سے راہ فرار اختیار کر کے واپس جاتے ہوئے انہیں کس قدر یقین حاصل ہوگیا ہوگا کہ یہی وہ نبی آخر الزمان ﷺ ہیں جن کے وہ منتظر تھے۔ ان کے دل گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول برحق ﷺ ہیں۔
آیت 88 خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ج لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنْظَرُوْنَ یہ الفاظ بھی سورة البقرۃ آیات 161۔ 162 میں آ چکے ہیں۔
آیت 89 اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْاقف۔ یعنی سچے دل سے ایمان لا کر عمل صالح کی روش پر گامزن ہو جائیں فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہے۔
آیت 90 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا یعنی حق کو پہچان لینے کے بعد ‘ چاہے زبان سے مانا ہو یا نہ مانا ہو ‘ پھر اگر وہ کفر کرتے ہیں یا زبان سے ماننے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں ‘ اور پھر وہ اپنے کفر میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
آیت 91 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِہِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَہَبًا وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ ط ظاہر ہے کہ یہ محال ہے ‘ ناممکن ہے ‘ لیکن یہ بات سمجھانے کے لیے کہ وہاں پر کوئی فدیہ نہیں ہے فرمایا کہ اگر کوئی زمین کے حجم کے برابر سونا دے کر بھی چھوٹنا چاہے گا تو نہیں چھوٹ سکے گا۔ یہ وہی بات ہے جو سورة البقرۃ کی آیت 48 اور آیت 123 میں فرمائی گئی کہ اس دن کسی سے کوئی فدیہ نہیں لیا جائے گا۔