اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
یہ جو انہوں نے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ فرمائی ‘ اور اللہ کے ساتھ بھی یہ وعدہ کیا ‘ اس میں ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے ۔ مومن کا ابتدائی عہد صرف اللہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جب ایک رسول کسی پیغام کو اہل ایمان تک پہنچا دیتا ہے تو پھر اس کی ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے اور اب مومن کی بیعت اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجاتی ہے ۔ اور جب رسول اس دنیا سے چلاجائے تب بھی یہ فریضہ اور یہ ذمہ داری مومن کے گلے میں پڑی رہتی ہے ۔ اور اس بیعت میں ‘ معاہدہ ذمہ داری میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ رسول کی اطاعت کرتے رہیں گے ۔ اس لئے ایمان صرف عقیدے کا نام نہیں ہے جو انسان کے ضمیر میں ہوتا ہے بلکہ اتباع کا نام ہے اور رسول کے نظام کی اطاعت بھی ضروری ہے اور یہی وہ مفہوم ہے جس کے ارد گرد اس پوری سورت کے مضامین گھوم رہے ہیں ۔ اس سورت میں اس مضمون کو مختلف طریقوں سے مکرر بیان کیا گیا ہے۔
یہاں حواریوں کے کلام میں ایک اہم جملہ ہے فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ……………” آپ ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ دیں۔ “ سوال یہ ہے کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں اور کس بات کے وہ گواہ ہیں ؟
درحقیقت ایک شخص جو ایمان لاکر مسلم بن جاتا ہے اور اللہ کے دین کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا فرض ہے کہ وہ اس دین کے بارے میں شہادت دے ۔ وہ گواہی دے کہ اس دین کا یہ حق ہے کہ یہ قائم ودوائم رہے ۔ وہ ایسی شہادت دے کہ اس دین میں انسانوں کی جو بھلائی ہے وہ اس کی شہادت ہے ۔ اور یہ مومن اس وقت تک شہادت نہیں دے سکتا جب تک وہ اپنے نفس اپنے اخلاق اور اپنی پوری زندگی کو اس دین کی جیتی جاگتی تصویر نہ بنالے ۔ وہ ایسی تصویر بنائے کہ لوگ اسے دیکھتے ہی ایک مثال سمجھیں اور اس بات کی شہادت دیں کہ واقعی اگر دین کی یہ صورت ہے تو یہ دین اس بات کا مستحق ہے ۔ کہ وہ زندہ رہے۔ اور یہ کہ یہ دین اس پوری کائنات میں تمام نظاموں اور طریقوں اور سوسائٹیوں کے مقابلے میں افضل اور بہتر ہے۔
ظاہر ہے کہ کوئی شخص یہ شہادت اس وقت تک نہیں دے سکتا جب تک وہ اس دین کو اپنے لئے ضابطہ ٔ حیات نہ بنالے ۔ جب تک وہ اسے اجتماعی نظام نہ بنالے ۔ اور جب تک وہ اسے اپنے اور اپنی قوم کے لئے نظام قانون نہ بنالے ۔ اور جب تک اس کے گرد ایسا معاشرہ قائم نہ ہوجائے جو اس نظام حیات کے مطابق اپنی زندگی کے معاملات کو چلاتا ہو ۔ جو ایک خدائی نظام اور مضبوط نظام ہے ۔ نیز یہ شہادت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ مومن اس نظام حیات کے قائم کرنے کے لئے جہاد شروع نہیں کرتا ۔ اور جب تک وہ اس جہاد میں زندگی پر موت کو ترجیح نہیں دیتا یعنی اس معاشرے کے خلاف جس میں انسانی زندگیوں پر اسلامی نظام رائج نہ ہو اور یہ اس بات کی شہادت ہوگی کہ اقامت دین کا فریضہ خود اس کی زندگی سے بھی عزیز تر ہے ۔ حالانکہ زندگی کی وہ تمام چیزوں کے لئے ایک عزیز متاع ہوتی ہے ۔ اس لئے اس کو شہید کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ شہادت دیتا ہے ۔
یہاں ان حواریوں نے دعا کی کہ اللہ ہمیں ایسے گواہوں میں لکھ دے ‘ ہم دین کے لئے شہادت دیں گے ۔ یعنی وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہماری زندگی دین مسیحی کا زندہ نمونہ بن جائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانے کے لئے جہاد کریں جس میں یہ دین قائم ہو ۔ اگر انہوں نے اس کا حق ادا کردیا تو گویا انہوں نے اس دین کے حق کی شہادت دیدی کہ یہ دین سچا دین ہے ۔
میں یہاں یہ بات کہوں گا کہ آج جو شخص بھی اپنے لئے ایمان اور اسلام کا دعویدار ہے وہ ذرا اس دعا پر غور کرے ۔ یہ ہے اصلی اسلام ‘ جس طرح حواریوں نے اسے سمجھا ۔ جس طرح حقیقی مسلمانوں کے دل میں بھی یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھی ہوئی ہے ۔ اور جو شخص دین کے لئے شہادت نہ دے گا اور اسے چھپا کر رکھے گا تو اس کا دل گناہ گار ہے ۔ یاد رہے کہ جو شخص اسلام کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنی عملی زندگی میں اسلام کے خلاف روش اختیار کرتا ہے ‘ جو شخص اسلام پر یقین رکھتا ہے لیکن اسلامی فرائض علی الاعلان ادا نہیں کرتا ‘ اور اسلامی نظام حیات کو عملاً قائم کرنے کے لئے جدوجہد نہیں کرتا ۔ وہ یہ کام یا اپنی پرامن زندگی کے لئے کرتا ہے یا اپنی زندگی کو دین اسلام کی زندگی پر فوقیت دیتا ہے تو اس نے یقیناً شہادت حق دینے میں سخت کوتاہی کی یا اس نے اسلام کے خلاف دوسرے نظاموں کے حق میں شہادت دی ۔ یہ ایسی شہادت ہے جو دوسروں کو بھی اسلام کی طرف آنے سے روکتی ہے اس لئے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ اہل اسلام اسلام کے حق میں نہیں بلکہ اسلام کے خلاف شہادت دے رہے ہیں ۔ اور اس شخص کا انجام عظیم بربادی ہے جو اپنے اس دعوے کی بناپر کہ وہ مسلم ہے تمام لوگوں کو اسلام سے روکتا ہے ۔ حالانکہ وہ دین کا مومن نہیں ہوتا بلکہ دین سے روکنے والا ہوتا ہے (اس موضوع پر استاد مودودی نے اپنی کتاب شہادت حق میں جو قیمتی بحث کی ہے اسے ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ سید قطب) ۔ اب بنی اسرائیل کے ساتھ قصہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا آخری حصہ آتا ہے۔
وہ مکاری جو یہودیوں نے اپنے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کی وہ عظیم مکاری تھی ‘ اس کا تانا بانا بہت طویل و عریض تھا۔ جس طرح اناجیل میں مذکور ہے کہ انہوں نے اس پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے منگیتر یوسف نجار کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے ۔ حالانکہ وہ پاک دامن تھیں اور ابھی یوسف کے ساتھ ان کی شادی نہ ہوئی تھی ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ۔ شغز اور اس کے بعد انہوں نے رومی حکمران بیلاطس کے پاس ان کے خلاف شکایات کیں اور کہا کہ وہ لوگوں کو رومی حکومت کے خلاف بغاوت پر ابھارتا ہے۔ اور یہ کہ وہ گمراہ ہوگیا ہے اور عوام الناس کے عقائد خراب کررہا ہے ۔ چناچہ بیلاطس نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا کہ وہ خود اسے جو سزا دینا چاہیں دیدیں ‘ اس لئے کہ وہ اگرچہ ایک بت پرست تھا مگر یہ جانتا تھا کہ ایک ایسے شخص کو کس طرح سزا دے جس پر اس کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔ یہ تھیں ان کی سازشیں بلکہ یہ ان سازشوں کا ایک حصہ تھا۔
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ……………” وہ اس کے خلاف خفیہ تدبیریں کرنے لگے اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر کی ‘ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے ۔ “
اللہ کی تدبیر اور یہودیوں کی تدبیر کے درمیان صرف ایک مشاکلت لفظی ہے ورنہ حقیقت کے اعتبار سے یہودیوں کی تدبیر مکر ہے اور اللہ کا جواب تدبیر ہے اور مکر کا مفہوم بھی تدبیر کرنا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہاں لفظ مکر اپنے لئے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اس سے اللہ ان کے مکر کی حقارت کا اظہار فرمائیں ۔ اس لئے کہ ان کا مقابلہ اللہ سے کیسے ہوسکتا ہے ۔ وہ کہاں اور اللہ کہاں ان کا مکر کیا اور اس کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر دونوں میں کیا مقابلہ ہے ۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا یا سولی چڑھانا چاہتے تھے ۔ لیکن اللہ نے انہیں صحیح سلامت اپنے ہاں بلالیا ‘ اور انہیں ان کفار اور ان کے گندے ماحول سے پاک کرلیا ۔ یعنی دور کردیا ‘ اور اس کے بعد انہیں یہ عزت دی گئی کہ وہ لوگ ان کے ماننے والے ہیں قیامت تک ان لوگوں کے مقابلے میں برتر رہیں گے جو ان کی تعلیمات کے ساتھ کفر کرتے ہیں ۔ اور جس طرح اللہ نے چاہا ایسا ہی ہوا ۔ اور اللہ نے مکاروں کے مکر کے بخئیے ادھیڑ دیئے۔
آپ کی وفات کیسے تھی ‘ آپ کا آسمانوں پر اٹھایاجانا کیسے تھا ۔ یہ غیبی امور ہیں اور یہ متشابہات میں داخل ہیں ۔ جن کی تاویل صرف اللہ جانتا ہے۔ اس لئے اس بارے میں بحث سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ نہ عقیدہ میں فائدہ ہے اور نہ شریعت میں فائدہ ہے ۔ جو لوگ اس کے پیچھے پڑتے ہیں اور اسے بحث ومجادلہ کا موضوع بناتے ہیں تو وہ آخر کار ایسے حالات تک پہنچتے ہیں جو ظاہری اور سطحی باتیں ہوتی ہیں۔ مزید التباس اور پیچیدگی میں پھنس جاتے ہیں اور وہ کوئی قطعی حقیقت سامنے نہیں لاسکتے ۔ نہ دل کو کوئی تسلی ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ ایسا امر ہے جس کی تاویل اللہ ہی جانتاہے……………رہی یہ بات کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو قیامت تک ان لوگوں سے برتر کردیا ہے جنہوں نے ان کا انکار کیا ہے ۔ تو اس کا مفہوم بہت ہی سہل ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین وہی لوگ ہیں جو اللہ کے صحیح دین کو ماننے والے ہیں اور وہ اسلام ہے ۔ اور اسلام وہ دین ہے جس کی حقیقت ہر نبی کے علم میں تھی ۔ اور ہر رسول نے اسلام ہی کی تبلیغ کی ۔ اور جب بھی کسی نے دین حقہ پر ایمان لایا تو وہ اسلام ہی تھا ‘ جب وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ۔ ان لوگوں کے مقابلے میں آتے ہیں جو ان کا انکار کرتے ہیں تو اپنی ایمانی قوت کی وجہ سے وہ لوگ جو ایمان لائے برتر ثابت ہوتے ہیں ۔ اس لئے وہ حضرت عیسیٰ کے متبعین ہیں ۔ اللہ کا دین ایک ہے ۔ اسی دین کو لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آئے تھے ۔ جس طرح ان سے پہلے اور ان کے رسول سب کے سب اسی دین کو لے کر آئے اور جو لوگ حضرت محمد ﷺ کا اتباع کرتے ہیں وہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد نبی آخرالزمان تک تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں …………یہی عام مفہوم ہے جو اس سورت کے سیاق وسابق سے منطبق ہے ۔ اور یہی مفہوم حقیقت دین اور حقیقت ایمان کے ساتھ مطابق ہے ۔ اور اہل ایمان اور اہل کفر کا انجام کار یہی ہے کہ وہ سب اللہ کے سامنے جائیں گے ۔
اس آیت میں اس بات کا فیصلہ کردیا گیا ہے کہ ہر کسی کو کئے کی جزاء ملے گی اور اس قدر انصاف ہوگا کہ بال برابر بےانصافی بھی نہ ہوگی ۔ اس سلسلے میں لوگوں کی تمنائیں جو بھی ہوں یا انہوں نے جو افتراء باندھا ہو …………اللہ کی طرف لوٹنا اٹل ہے ۔ اس سے کوئی چھٹکارا نہیں اور دنیا وآخرت میں اہل کفر کے لئے عذاب طے ہوچکا ہے ‘ کوئی نہیں ہے کہ اسے رد کرسکے ۔ اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اس کے بعدنیک کام کئے انہیں پورا پورا اجرملنا ہے ۔ اس میں کوئی کمی بیشی ممکن ہی نہیں اور اللہ کبھی ظلم نہیں کرے گا اور وہ کیسے کرے گا جب وہ خود ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔
اور اہل کتاب کا یہ گمان کہ وہ محض چنددن ہی آگ میں داخل ہوں گے اور اپنے اس گمان پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے بارے میں جو صغریٰ کبریٰ ملایا وہ سب ان کی نفسانی خواہشات ہیں وہ فاسد ہیں ‘ وہ باطل ہیں اور ان کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے۔
جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قصہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے ‘ جس کے بارے میں اس وقت تک رسول ﷺ کا ان لوگوں کے ساتھ مناظرہ ہورہا تھا تو اس کے بعد اس قصے پر ایک اختتامیہ آجاتا ہے اور اس اختتامیہ میں وہ تمام حقائق کھول دیئے جاتے ہیں جو اس قصے کے واقعات سے اخذ ہوتے ہیں ۔ اور اب رسول اللہ ﷺ کو وہ بات بتادی جاتی ہے جسے اب اہل کتاب کے سامنے اس مباحثے کو ختم کرنے کے لئے پیش کردیں ‘ یہ ایک فیصلہ کن بات ہے جس کے ذریعہ یہ تمام مباحثہ اور مذاکرہ ختم ہوجاتا ہے ۔ اور اس میں وہ حقیقت بھی آجاتی ہے جسے لے کر آپ آئے ہیں ۔ جس کی طرف آپ دعوت دیتے ہیں اور یہ نتیجہ مکمل یقین اور مکمل وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔
اس اختتامیہ میں سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ رسول ﷺ پر جو وحی نازل ہوئی ہے وہ حق ہے ۔
ذَلِكَ نَتْلُوهُ عَليْكَ مِنَ الآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ……………” یہ آیات اور حکمت سے لبریز تذکرے ہیں جو ہم تمہارے سنا رہے ہیں ۔ “ یہ قصے اور قرآنی ہدایات ‘ سب کی سب اللہ کی وحی پر مبنی ہیں اور خود اللہ انہیں پڑھ کر نبی ﷺ کو حکمت و دانائی کی آیات پرھ کر سناتے ہیں ۔ انداز بیان ایسا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور خوشنودی حاصل ہے ۔ جب خود اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو حکمت و دانائی کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں ۔ اللہ دانا و حکیم ہیں انسانی زندگی اور نفس کے حوالے سے اونچے حقائق اس کے پاس ہیں ۔ اور وہ اس نے ایک خاص طریقے اور خاص اسلوب کے ساتھ وہاں ودیعت کئے ہیں ۔ وہی بتاسکتا ہے کہ فطرت کے ساتھ ہمکلامی کا طریقہ کیا ہے ۔ اور فطرت انسانی تک رسائی کا اسلوب کیا ہے۔ اور یہ حکمت اس انداز میں بتائی جاتی ہے جس کی کوئی سابق نظیر نہیں ہے ۔ یعنی اس تمام انسانی حکمت کے ریکارڈ میں جس کا مصدر اور منبع اللہ نہ ہو ۔
اس کے بعد یہ اختتامیہ حقیقت مسیح کا فیصلہ کردیتا ہے ‘ فیصلہ کن انداز میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ہی ہر چیز کا خالق ہے ۔ جس طرح اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا ۔ اللہ کے ہاں تخلیق کا عمل صرف یہ ہے ۔
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ……………” اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے بنایا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا۔ “
حضرت عیسیٰ کی ولادت اس اعتبار سے کہ وہ پیدائش انسانی کے عام ڈگر سے ہٹ کر ہے ضرور تعجب انگیز ہے ۔ لیکن جب اسے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے حوالے سے دیکھاجائے ‘ تو اس میں کوئی انوکھی چیز نظر نہیں آتی ۔ پیدائش مسیح کے معاملے میں اہل کتاب کے درمیان جو بحث ومناظرہ اور جدل وجدال جاری تھا ۔ اور اس سلسلے میں وہ عجیب و غریب قصے کہانیاں گھڑ رہے تھے ۔ طلسماتی ماحول پیدا کررہے تھے کہ وہ ایک عجیب بات ہے ۔ محض اس لئے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ۔ یہی اہل کتاب اپنی کتابوں میں صبح وشام یہ تلاوت کرتے تھے کہ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور اس ڈھانچے میں پھر اللہ نے روح پھونکی اور اس سے بطور انسان آدم زندہ ہوگیا ۔ اور وہ حضرت آدم کے بارے میں اس قسم کے قصے کہانیاں نہ گھڑتے تھے ۔ اور نہ ہی بحث و مباحثہ کرتے تھے ۔ وہ آدم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ سوچتے تھے کہ ان کی بھی ایک لاہوتی طبیعت ہے ۔ اس لئے کہ جس عناصر سے آدم انسان بن کر آئے وہی عناصر ہیں جن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بن باپ پیدا ہوکر آئے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) میں اپنی روح پھونکی ‘ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں بھی روح ڈالی ۔ اور اس کا طریقہ کار ایک کلمہ کن سے مکمل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے کن کہا اور جو اس نے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ فیکون ہوگیا۔
یہ حقیقت کس قدر سادہ ہے حقیقت آدم بھی یہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ بلکہ تمام مخلوقات کی تخلیق کی بس یہی حقیقت ہے ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو ذہن انسانی میں بسہولت اور بوضاحت آجاتی ہے ۔ تعجب تو اس پر ہے کہ ان واقعات کے بارے میں یہ طویل مجادلہ اور مباحثہ کیوں ہوتا رہا ۔ حالانکہ یہ واقعہ اللہ کی سنت کبریٰ کے مطابق تھا ۔ جو اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے ۔ یعنی تخلیق کرنا اور دوبارہ اٹھانا۔
دراصل یہ ہے انداز اس ذکر حکیم کا ‘ یہ ذکر فطرت انسانی کو فطری منطق سے خطاب کرتا ہے ۔ جو واقعی عملی ‘ سادہ ہوتی ہے ۔ اس حکیمانہ انداز کلام کی وجہ سے دنیا کے پیچیدہ ترین مشکل ترین فلسفی مسائل بھی اسے سہل نظر آتے ہیں جیسے روز مرہ کے معمولات۔
سیاق کلام جب اس واضح فیصلے تک پہنچ جاتا ہے ۔ تو روئے سخن اب رسول اکرم ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اور آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ اپنے سچے موقف پر قائم رہیں ۔ جس کی تلاوت آپ کے سامنے کی جارہی ہے اور جسے آپ کے حس و شعور میں بٹھایا جارہا ہے جس طرح اہل ایمان کے حس و شعور میں اسے مضبوط طرح جاگزیں کیا جارہا ہے اس لئے کہ اہل ایمان میں سے بعض افراد پر اہل کتاب کے شبہات اثر ڈال رہے تھے اور عجیب انداز میں تلبیس کرکے اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔
فرماتے ہیں : الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ……………” تم ان لوگوں میں شامل نہ ہو ‘ جو اس میں شک کرتے ہیں “…………رسول ﷺ نہ تو شک کرتے تھے اور نہ ہی ان کے دل میں کوئی خلجان تھا۔ ان پر جو کلام نازل ہوتا تھا وہ اسے من جانب اللہ سمجھتے تھے ۔ ایک لحظہ کے لئے بھی شک ان کے قریب نہیں آیا۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ آپ اس ہدایت پر جم جائیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مسلمہ کے دشمنوں نے اس دور میں اہل ایمان کے خلاف سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھا ‘ اور وہ اس سازش میں امت مسلمہ کے بعض افراد کو پھانس رہے تھے ۔ امت مسلمہ کے خلاف یہ سازشیں آج بھی ہورہی ہیں اور ہر دور میں ہوتی رہتی ہیں ۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ ان دھوکہ بازوں اور جھوٹوں کے مقابلے میں محتاط رہے۔ اس لئے کہ امت کے اس قسم کے دشمن ہر دور میں نیاجال لے کر آتے ہیں ۔
غرض پیدائش مسیح کا مسئلہ حل ہوگیا۔ حقیقت واضح ہوگئی ‘ اب اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو اس طرف متوجہ فرماتے ہیں کہ وہ اب ان لوگوں کے ساتھ یہ مجادلہ اور مناظرہ ختم کردیں اس لئے کہ مسئلہ واضح ہوگیا ‘ سچائی واضح طور پر سامنے آگئی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ اب آخری بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو مباہلے کی دعوت دی جائے
اس کے بعد اس موضوع پر رسول اللہ کے ساتھ جو لوگ مباحثہ کرتے تھے ‘ رسول ﷺ نے بھرے مجمعے میں انہیں دعوت مباہلہ دی ۔ یعنی سب آجائیں اور اللہ سے دست بدعا ہوں کہ اللہ جھوٹوں پر لعنت کرے ۔ اس چیلنج کے انجام سے وہ لوگ ڈر گئے اور انہوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا۔ جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ کا موقف سچا ہے ۔ لیکن جس طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ اسلام اس لئے قبول نہ کیا کہ ان لوگوں کو اپنے معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل تھا ۔ نیز یہ لوگ ان کے مذہبی پیشواؤں میں سے تھے اور اس دور میں اہل کنیسہ کو اپنی سوسائٹی میں مکمل اقتدار حاصل تھا اور اس کے ساتھ ان کے بڑے مفادات وابستہ تھے ۔ اس سوسائٹی میں وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ یہ بات نہ تھی کہ جو لوگ دین اسلام سے اعراض کررہے تھے ان کے سامنے کوئی دلیل نہ پیش کی گئی تھی بلکہ ان کے بعض مفادات ایسے تھے جنہیں وہ نہ چھوڑ سکتے تھے ‘ کچھ ایسی نفسیاتی خواہشات میں وہ گھرے ہوئے تھے جن پر وہ یہ نہ کرسکتے تھے ۔ حالانکہ سچائی واضح ہوگئی تھی اور اس میں کوئی شک وشبہ نہ رہا تھا۔
دعوت مباہلہ کے بعد اب اس اختتامیہ میں حقیقت وحی ‘ حکمت قصص فی القرآن ‘ اور حقیقت توحید کا بیان کیا جاتا ہے۔ شاید یہ آیات دعوت مباہلہ سے مجادلین کے انکار کے بعد اتری ہوں ۔ اور ان لوگوں کو سخت دہمکی دی جاتی ہے جو اللہ کی اس زمین پر محض برائے فی سبیل اللہ فسادیہ مجادلے کرتے ہیں ۔