اس صفحہ میں سورہ Faatir کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فاطر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 4 { وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ } ”اور اے نبی ﷺ ! اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں علیہ السلام کو جھٹلایا گیا ہے۔“ { وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ } ”اور بالآخر تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔“
آیت 5 { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاوقفۃ } ”اے لوگو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے ‘ تو دیکھو دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے“ { وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ } ”اور نہ ہی تمہیں دھوکے میں ڈالے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز۔“ اس سے پہلے ہم یہی الفاظ سورة لقمان کی آیت 33 میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ لفظ ”غرور“ اگر ”غ“ کی پیش کے ساتھ ہو تو مصدر ہے ‘ اور اگر ”غ“ کی زبر کے ساتھ فَعول کے وزن پر ہوتویہ مبالغے کا صیغہ ہوگا۔ چناچہ ”الـغَرُور“ کے معنی ہیں بہت بڑا دھوکے باز ‘ یعنی ابلیس لعین جو اکثر لوگوں کو اللہ کے بارے میں اس طرح بھی ورغلاتا ہے کہ اللہ بڑا رحیم ‘ کریم ‘ شفیق اور مغفرت کرنے والا ہے۔ تمہیں کا ہے کی فکر ہے ؟ تم نے کون سے ایسے بڑے گناہ کیے ہیں۔ اور یہ سودی کاروبار ! اس کا کیا ہے ؟ یہ تو سب کرتے ہیں۔ اور وہ فلاں غلط کام اگر تم سے ہوگیا ہے تو کیا ہوا ؟ اللہ غفورٌ رحیم ہے ‘ وہ تو بڑے بڑے گناہگاروں کو بخش دیتا ہے ‘ چناچہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ‘ تم جو کچھ کر رہے ہو کرتے جائو اور جس راستے پر چل رہے ہو چلتے جائو ! اللہ کی شان کریمی اور صفت ِغفاری کے نام پر انسان کو دھوکے میں ڈالنے کا یہ ایک ابلیسی حربہ ہے جس سے یہاں خبردار کیا گیا ہے کہ دیکھو ! یہ ابلیس بہت بڑا دھوکے باز ہے ‘ یہ کہیں تمہیں اللہ کی رحمت کے حوالے سے ہی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بہلاوے میں آکر تم دنیوی زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو کر اللہ کو بھول جائو اور اس طرح تمہاری یہ زندگی تمہارے لیے ایک بہت بڑا دھوکہ بن جائے۔ اور دیکھو ! دُنیوی زندگی کے بارے میں یہ حقیقت کبھی تمہاری نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے : { وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ } آل عمران ”اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔“
آیت 6 { اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا } ”یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے ‘ چناچہ تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو !“ { اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ } ”یہ تو بلاتا ہے اپنے ہی گروہ کے لوگوں کو تاکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوجائیں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایسا انسان جس کی نیت درست نہیں اور اس کے اندر شیطانی رجحانات بالقوہ potentially موجود ہیں وہ شیطان کا آسان شکار ہے۔ چناچہ شیطان ہر ایسے انسان کی طرف خصوصی طور پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے کے بعد اسے راستے میں نہیں چھوڑتا ‘ بلکہ اس کی منزل جہنم تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ”برے“ کو اس کے گھر تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اس حوالے سے سورة الاعراف کے 22 ویں رکوع میں بلعم بن باعوراء کا واقعہ بڑا عبرت انگیز ہے۔ وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے تھا۔ صرف عابد و زاہد نہیں ‘ عالم بھی تھا۔ لیکن جب وہ غلطی کا ارتکاب کر کے اللہ کی اطاعت سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا کیا اور اسے دھکے دیتا ہوا گمراہی اور بےحیائی میں آگے سے آگے بڑھاتا چلا گیا : { فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ۔ الاعراف ”پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ ہوگیا گمراہوں میں سے“۔ گویا جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ اور ارادوں میں فتور ہو ‘ شیطان انہیں چن ُ چن کر ڈھونڈتا ہے ‘ انہیں اپنی طرف بلاتا ہے اور اپنے گروہ حزب الشیطان میں شامل کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اولیاء الرحمن اور عباد الرحمن کے زمرے میں آتے ہیں ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کرلیجئے کہ جس طرح بعض لوگوں میں حزب الشیطان سے موافقت کا رجحان potential پہلے سے موجود ہوتا ہے اسی طرح کچھ لوگ بالقوہ potentially حزب اللہ والے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمر اور حضرت حمزہ میں شروع ہی سے حزب اللہ میں شامل ہونے کی صلاحیت موجود تھی۔ چناچہ اگرچہ ان کے فیصلے میں کچھ تاخیر ہوئی ‘ قبولِ اسلام میں چھ سال لگ گئے ‘ لیکن بالآخر وہ صلاحیت ظاہر ہوگئی۔ -۔ ”حزب اللہ“ اور ”حزب الشیطان“ قرآنی اصطلاحات ہیں ‘ ان کی وضاحت سورة المجادلہ کی آخری آیات میں آئی ہے۔
آیت 7 { اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ} ”وہ لوگ جو کفر کی روش اختیار کریں گے ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے۔“ { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ} ”اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ‘ ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔“ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ !
آیت 8 { اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا } ”تو کیا وہ شخص جس کے لیے مزین ّکر دی گئی ہو اس کے عمل کی برائی اور وہ اسے اچھاسمجھ رہا ہو ہدایت پاسکتا ہے !“ آج من حیث القوم ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ آج ہم فحاشی اور بےحیائی کو کلچر اور ثقافت کے خوبصورت ناموں کے ساتھ نہ صرف معاشرے میں ترویج دے رہے ہیں بلکہ اس ”ترقی“ پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ٹیوی ‘ کیبل اور انٹر نیٹ نے اس فحاشی کو گھر گھر میں پہنچا دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ کسی کو اس ”اشاعت ِفاحشہ“ میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ امریکہ میں تو ایسی societies nudists بھی پائی جاتی ہیں جن سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ صرف لباس کو محض ایک تکلف سمجھتے ہیں بلکہ مادرزاد برہنہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی حالت میں مخلوط محفلیں بھی سجاتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی فحاشی اور بےحیائی کی زندہ مثال ہے۔ ہم جنس پرست مرد gays ہوں یا عورتیں lesbians وہ نہ صرف انتہائی بےشرمی اور بےباکی سے اس فعل شنیع میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے باقاعدہ تنظی میں بنا رکھی ہیں اور ان تنظیموں کے پلیٹ فارم سے وہ سر عام اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اپنے قانونی و معاشرتی ”حقوق“ کے لیے سینہ تان کر مظاہرے کرتے ہیں۔ بہر حال آج کی دنیا میں بیشمار لوگ اس آیت کے الفاظ کا مصداق نظر آتے ہیں جن کے برے اعمال ان کی نگاہوں میں مزین کردیے گئے ہیں اور وہ ان برے اعمال کو نہ صرف اچھا سمجھتے ہیں بلکہ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ { فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ } ”تو اللہ گمراہ کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔“ یہاں پر ”مَنْ“ کا تعلق دو طرفہ ہے۔ چناچہ اس کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے اور گمراہ کرتا ہے اسے جو گمراہ ہونا چاہتا ہے۔ { فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ کی جان نہ گھلے ان لوگوں پر رنج کی وجہ سے۔“ اب جبکہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ ﷺ ان کے انجام کے تصور سے ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنی جان مت گھلائیں ‘ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ -۔ یہ مضمون سورة الکہف میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے : { فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۔ ”تو اے نبی ﷺ ! آپ شاید اپنے آپ کو غم سے ہلاک کرلیں گے ان کے پیچھے ‘ اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات قرآن پر“۔ پھر یہی مضمون سورة الشعراء میں بھی مذکور ہے : { لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ ”اے نبی ﷺ ! شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو ‘ اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے۔“ { اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ } ”یقینا اللہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ کہ یہ لوگ کر رہے ہیں۔“
آیت 9 { وَاللّٰہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ } ”اور اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے“ { فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ } ”پھر وہ اٹھا لیتی ہیں بادلوں کو ‘ پھر ہم ہانک دیتے ہیں اس بادل کو ایک ُ مردہ زمین کی طرف“ { فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا } ”پھر ہم اس سے اس زمین کو زندہ کردیتے ہیں اس کے مردہ ہوجانے کے بعد۔“ { کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ } ”اسی طرح سے ہوگا تمہارا اٹھایا جانا بھی !“ جس طرح بےآب وگیاہ بنجر زمین پر بارش کے برستے ہی زندگی کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے طرح طرح کا سبزہ اس میں سے نمودار ہونے لگتا ہے ‘ اسی طرح وقت آنے پر تم بھی اللہ کے حکم سے زمین سے نکل کھڑے ہو گے۔
آیت 10 { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا } ”جو کوئی عزت کا طالب ہے تو وہ جان لے کہ عزت سب کی سب اللہ کے پاس ہے۔“ جو شخص اللہ کے جتنا قریب ہوگا اسی قدر وہ سزا وار عزت اور صاحب ِتوقیر ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص اللہ سے جتنا دور ہوگا اسی قدر وہ ذلیل ہوگا ‘ چاہے دنیا میں وہ بظاہر کتنا ہی با عزت اور صاحب ثروت ہو۔ سورة المنافقون میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا : { وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ } ”اور عزت تو اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول ﷺ کے لیے اور مومنین کے لیے ‘ لیکن منافقین یہ بات نہیں جانتے۔“ { اِلَـیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ } ”اسی کی طرف اٹھتی ہیں اچھی باتیں“ ہر اچھی بات ‘ ہر اچھا نظریہ ‘ اچھا خیال ‘ دعوت ِحسنہ اور موعظہ حسنہ گویا ”کلمہ طیبہ“ ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ”الْکَلِمُ الطَّیِّبُ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذکر ‘ دعا ‘ تلاوتِ قرآن اور علم و نصیحت کی باتیں ہیں۔ چناچہ ”ایمان“ بھی کلمہ طیبہ ہے۔ ظاہر ہے اگر کہیں کسی خیال یا نظریہ کا اظہار کیا جائے گا تو لامحالہ اس کا اظہار ایک ”کلمہ“ ہی کی شکل میں پیش کرنا ممکن ہوگا۔ بہر حال ہر کلمہ طیبہ پاکیزہ بات میں ترفع ّ اوپر اٹھنے کی خداد ادصلاحیت موجود ہوتی ہے اور یوں ہر کلمہ طیبہ اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے ‘ لیکن ترفع کی اس صلاحیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے محنت اور کوشش کی بھی ضرورت ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا : { وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ } ”اور عمل ِصالح اسے اوپر اٹھاتا ہے۔“ یعنی ایمان ‘ یقین ‘ اچھے خیالات ‘ اچھے نظریات اور اچھے عزائم اکیلے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے جب تک ان کے ساتھ محنت اور تگ و دو نہیں ہوگی۔ گویا حقیقی کامیابی کے لیے ایمان اور عمل صالح دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ { وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ} ”اور جو لوگ بری سازشیں کر رہے ہیں ان کے لیے سخت سزا ہوگی۔“ { وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوْرُ } ”اور ان کی سازشیں ناکام ہو کر رہ جائیں گی۔
آیت 11 { وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا } ”اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر نطفے سے ‘ پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔“ { وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ } ”اور نہ ہی کسی مادہ کو کوئی حمل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ جنتی ہے مگر یہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔“ انسان ہو یا حیوان ‘ اس حوالے سے کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں۔ { وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ } ”اور کسی عمر والے کو عمر نہیں دی جاتی اور نہ ہی کسی کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر یہ سب ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“ { اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ} ”یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔“ یعنی اپنی نوع species کے اعتبار سے انسان کی ایک اوسط average عمر ہے ‘ لیکن کوئی شخص اس اوسط عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے جبکہ ایک دوسرا شخص اوسط عمر کے بعد بھی طویل عرصہ تک زندہ رہتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ایک طے شدہ نظام کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کون طویل عمر پائے گا ‘ کون چھوٹی عمر میں فوت ہوجائے گا اور کس کو کب موت آئے گی ‘ اس بارے میں تمام فیصلے اللہ کے ہاں پہلے سے طے شدہ ہیں۔