اس صفحہ میں سورہ As-Saaffaat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الصافات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
اب بھی سنبھل جاؤ۔ ابراہیم ؑ بھی نوح کے دین پر تھے، انہی کے طریقے اور چال چلن پر تھے۔ اپنے رب کے پاس سلامت دل لے گئے یعنی توحید والا جو اللہ کو حق جانتا ہو۔ قیامت کو آنے والی مانتا ہو۔ مردوں کو دوبارہ جینے والا سمجھتا ہو۔ شرک وکفر سے بیزار ہو، دوسروں پر لعن طعن کرنے والا نہ ہو۔ خلیل اللہ نے اپنی تمام قوم سے اور اپنے سگے باپ سے صاف فرمایا کہ یہ تم کس کی پوجا پاٹ کررہے ہو ؟ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت چھوڑ دو اپنے ان جھوٹ موٹھ کے معبودوں کی عبادت چھوڑ دو۔ ورنہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا کچھ نہ کریگا اور تمہیں کیسی کچھ سخت ترین سزائیں دیگا ؟
بت کدہ آذر اور حضرت ابراہیم ؑ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ نے اپنا دینی کام نکال لیا۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب حضرت ابراہیم ؑ کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ حضرت فتادہ ؓ فرماتے ہیں۔ جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں۔ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں۔ ایک حدیث میں آیا کہ ابراہیم ؑ نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان (فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ 89) 37۔ الصافات :89) اور ان کا فرمان (قَالَ بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63) 21۔ الأنبیاء :63) اور ایک ان کا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا۔ تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بےنیاز کردیتی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ ؑ کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہوگیا ہے۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے۔ حضرت سعید کا بیان ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرمادیا کہ میں مقیم ہوں۔ اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقینا ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جب آپ کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ کو بھی مجبور کرنے لگی آپ ہٹ گئے اور فرما دیا کہ میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟ یہاں آکر خلیل اللہ نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہوجائیں گے پھر ہم کھالیں گے۔ ابراہیم نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ بولتے کیوں نہیں۔ اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جاسکے، جیسا کہ سورة انبیاء میں گذر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہوچکی ہے بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہوا ؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کرلیا کہ ہو نہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے (علیہ الصلوۃ والسلام) اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل ؑ کے پاس دوڑے، بھاگے، دانت پیستے، تلملائے کو ستے گئے۔ خلیل اللہ کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو ؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو ؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے۔ ممکن ہے کہ اس آیت میں ما مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ الذی کے معنی میں ہو، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے۔ چناچہ امام بخاری ؒ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے۔ پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آکر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو۔ چناچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کردیا۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورة انبیاء میں گذر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے۔
ذبیح اللہ کی بحث اور یہودی روایات۔ خلیل اللہ جب اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوگئے۔ بڑی بڑی قدرتی نشانیاں دیکھ کر بھی جب انہیں ایمان نصیب نہ ہوا تو آپ نے ان سے ہٹ جانا پسند فرمایا اور اعلان کردیا کہ میں اب تم میں سے ہجرت کرجاؤں گا میرا رہنما میرا رب ہے۔ ساتھ ہی اپنے رب سے اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا مانگی تاکہ وہی توحید میں آپ کا ساتھ دے۔ اسی وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایک بردبار بچے کی بشارت دی جاتی۔ یہ حضرت اسماعیل ؑ تھے یہی آپ کے لیے صاحبزادے تھے اور حضرت اسحاق سے بڑے تھے۔ اسے تو اہل کتاب بھی مانتے ہیں بلکہ ان کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت اسماعیل کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر چھیاسی سال کی تھی اور جس وقت حضرت اسحاق ؑ تولد ہوتے ہیں اس وقت آپ کی عمر ننانوے برس کی تھی۔ بلکہ ان کی اپنی کتاب میں تو یہ بھی ہے کہ جناب ابراہیم کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔ لیکن صرف اس لیے کہ یہ لوگ خود تو نبی اللہ حضرت اسحاق ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور نبی اللہ و ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے عرب ہیں۔ انہیں نے واقعہ کی اصلیت بدل دی اور اس فضیلت کو حضرت اسماعیل ؑ سے ہٹاکر حضرت اسحاق کو دے دیا اور بےجاتاویلیں کرتے اللہ کے کلام کو بدل ڈالا۔ اور کہا ہماری کتاب میں لفظ وحیدک ہے اس سے مراد اکلوتا نہیں بلکہ جو تیرے پاس اس وقت اکیلا ہے وہ ہے۔ یہ اس لیے کہ حضرت اسماعیل تو اپنی والدہ کے ساتھ مکہ میں تھے یہاں خلیل اللہ کے ساتھ صرف حضرت اسحاق تھے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ وحید اسی کو کہا جاتا ہے جو اکلوتا ہو اس کا اور کوئی بھائی نہ ہو۔ پھر یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اکلوتے اور پہلوٹھی کے بچے کے ساتھ جو محبت ہوتی اور اس کے جو لاڈ پیار ہوتے ہیں عموماً دوسری اولاد کے ہونے پر پھر وہ باقی نہیں رہتے۔ اس لیے اس کے ذبیحہ کا حکم امتحان اور آزمائش کی زبردست کڑی ہے۔ ہم اسے مانتے ہیں کہ بعض سلف بھی اس کے قائل ہوئے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق تھے یہاں تک کہ بعض صحابہ سے بھی یہ مروی ہے لیکن یہ چیز کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ خیال یہ ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک شہرت دی ہوئی بات کو ان حضرات نے بھی بےدلیل اپنے ہاں لے لیا دور کیوں جائیں کتاب اللہ کے الفاظ میں ہی غور کر لیجیے کہ حضرت اسماعیل کی بشارت کا غلام حلیم کہہ کر ذکر ہوا اور پھر اللہ کی راہ میں ذبح کے لیے تیار ہونے کا ذکر ہوا۔ اس تمام بیان کو ختم کرکے پھر نبی صالح حضرت اسحاق کے تولد کی بشارت کا بیان ہوا۔ اور فرشتوں نے بشارت اسحاق کے موقع پر غلام علیم فرمایا تھا۔ اسی طرح قرآن میں ہے بشارت اسحاق کے ساتھ ہی ہے (وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71) 11۔ ھود :71) یعنی حضرت ابراہیم کی حیات میں ہی حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوب پیدا ہوں گے یعنی ان کی تو نسل جاری رہنے کا پہلے ہی علم کرایا جاچکا تھا اب انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ؟ اسے ہم پہلے بھی بیان کرچکے۔ البتہ حضرت اسماعیل ؑ کا وصف یہاں پر بردباری کا بیان کیا گیا ہے۔ جو ذبیح کے لیے نہایت مناسب ہے۔ اب حضرت اسماعیل بڑے ہوگئے اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ آپ اس وقت مع اپنی والدہ محترمہ کے فاران میں تھے حضرت ابراہیم عموماً وہاں جاتے آتے رہتے تھے یہ مذکور ہے کہ براق پر جاتے تھے اور اس جملے کے یہ معنی بھی ہیں کہ جوانی کے لگ بھگ ہوگئے لڑکپن کا زمانہ نکل گیا اور باپ کی طرح چلنے پھرنے کام کاج کرنے کے قابل بن گئے تو حضرت ابراہیم نے خواب دیکھا کہ گویا آپ اپنے پیارے بچے کو ذبح کررہے ہیں انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں اور اس کی دلیل یہی آیت ہے۔ ایک مرفوع روایت میں بھی یہ ہے۔ پس اللہ کے رسول نے اپنے لخت جگر کی آزمائش کے لیے کہ اچانک وہ گھبرانہ اٹھے، اپنا ارادہ ان کے سامنے ظاہر کیا۔ وہاں کیا تھا۔ وہ بھی اسی درخت کے پھل تھے نبی ابن نبی تھے جواب دیتے ہیں اب پھر دیر کیوں لگا رہے ہو یہ باتیں بھی پوچھنے کی ہوتی ہیں جو حکم ہوا ہے اسے فوراً کر ڈالیے اور اگر میری نسبت کھٹکا ہو تو زبانی اطمینانی کیا کروں چھری رکھئے خود معلوم ہوجائے گا کہ میں کیسا کچھ صابر ہوں۔ انشاء اللہ میرا صبر آپ کا جی خوش کردے گا۔ سبحان اللہ جو کہا تھا وہی کرکے دکھایا اور صادق الوعد ہونے کا سرٹیفیکیٹ اللہ کی طرف سے حاصل کر ہی لیا۔ آخر باپ بیٹا دونوں حکم اللہ کی اطاعت کے لیے جان بکف تیار ہوجاتے ہیں باپ بچے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اور باپ اپنے نور چشم لخت جگر کو منہ کے بل زمین پر گراتے ہیں تاکہ ذبح کے وقت منہ دیکھ کر محبت نہ آجائے اور ہاتھ سست نہ پڑجائے۔ مسند احمد میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ اپنی نور نظر کو ذبح کرنے کے لیے بحکم اللہ لے چلے تو سعی کے وقت شیطان سامنے آیا لیکن حضرت ابراہیم اس سے آگے بڑھ گئے، پھر حضرت جبرائیل کے ساتھ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچے تو پھر شیطان سامنے آیا آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ پھر جمرہ وسطی پاس آیا پھر وہاں سات کنکریاں ماریں۔ پھر آگے بڑھ کر اپنے پیارے بچے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے نیچے پچھاڑا، ذبیح اللہ کے پاک جسم پر اس وقت سفید چادر تھی کہنے لگے ابا جی اسے اتار لیجیے تاکہ اس میں آپ مجھے کفنا سکیں۔ اس وقت بیٹے کو ننگا کرتے وقت باپ کا عجب حال تھا کہ آواز آئی بس ابراہیم خواب کو سچا کرچکے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک مینڈا سفید رنگ کا بڑے بڑے سینگوں اور صاف آنکھوں والا نظر پڑا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اسی لیے ہم اس قسم کے مینڈے (چھترے) چن چن کر قربانی کے لیے لیتے تھے۔ ابن عباس ؓ ہی سے دوسری روایت میں حضرت اسحاق کا نام مروی ہے۔ تو گو دونوں نام آپ سے مروی ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے اور اسکی دلیلیں آرہی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس کے بدلے بڑا ذبیحہ اللہ نے عطا فرمایا اس کی بابت حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ جنتی چھترا تھا جو وہاں چالیس سال سے کھاپی رہا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ اپنے بچے کو چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولیے۔ جمرہ اولی پر آکر سات کنکریاں پھنکیں پھر وہ بھاگ کر جمرہ وسطی پر آگیا۔ سات کنکریاں ماریں اور وہاں سے ملخر میں لاکر ذبح کیا اس کے سینگ سر سمیت ابتداء اسلام کے زمانہ تک کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکتے رہے تھے پھر سوکھ گئے۔ ایک مرتبہ حضرت کعب ؓ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ تو حدیثیں بیان کررہے تھے اور حضرت کعب کتاب کے قصے بیان کررہے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر نبی کے لیے ایک دعا قبول شدہ ہے اور میں نے اپنی اس مقبول دعا کو پوشیدہ کرکے رکھ چھوڑا ہے اپنی امت کی شفاعت کے۔ اور فرمانے لگے تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں یا فرمایا حضور ﷺ پر میرے ماں باپ صدقے جائیں پھر حضرت کعب نے حضرت ابراہیم خلیل ؑ کا قصہ سنایا کہ جب آپ اپنے لڑکے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے مستعد ہوگئے تو شیطان نے کہا اگر میں اس وقت انہیں نہ بہکا سکا تو مجھے ان سے عمر بھر کے لیے مایوس ہوجانا چاہیے۔ پہلے تو یہ حضرت سارہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ ابراہیم تمہارے لڑکے کو کہاں لے گئے ہیں ؟ مائی صاحبہ نے جواب دیا اپنے کسی کام پر لے گئے ہیں اس نے کہا نہیں بلکہ وہ ذبح کرنے کے لیے لے گئے ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا وہ اسے کیوں ذبح کرنے لگے ؟ لعین نے کہا وہ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے یہی حکم ہے جواب ملا پھر تو یہی بہتر ہے کہ وہ جلدی سے اللہ کے حکم کی بجا آوری سے فارغ ہو لیں۔ یہاں سے نامراد ہو کر بچے کے پاس آیا اور کہا تمہارے ابا تمہیں کہا لے جاتے ہیں۔ ؟ فرمایا اپنے کام کے لیے کہا نہیں بلکہ وہ تجھے ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں، فرمایا یہ کیوں ؟ کہا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں اللہ کا انہیں حکم ہے۔ کہا پھر تو واللہ انہیں اس کام میں بہت جلدی کرنی چاہیے۔ ان سے بھی مایوس ہو کر یہ ملعون خلیل اللہ کے پاس پہنچا۔ ان سے کہا بچے کو کہاں لے جا رہے ہو ؟ جواب دیا اپنے کام کے لیے ملعون نے کہا نہیں بلکہ تم تو اسے ذبح کرنے کے لیے جا رہے ہو ؟ آپ نے فرمایا یہ کیوں ؟ بولا اس لیے کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ کا حکم تمہیں یونہی ہے، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم پھر تو میں ضرور ہی اسے ذبح کر ڈالوں گا۔ اب ابلیس مایوس ہوگیا۔ دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تمام واقعے کے بعد جناب باری تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے فرمایا کہ ایک دعا تم مجھ سے مانگو جو مانگو گے ملے گا حضرت اسحاق نے کہا پھر میری دعا یہ ہے کہ جس نے تیرے ساتھ شریک نہ کیا ہو اسے تو ضرور جنت میں لے جانا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلوں یا تو یہ کہ میری آدھوں آدھ امت بخشی جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں اور اسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو میں نے شفاعت کرنے کو ترجیح دی اس پر کہ وہ عام ہوگی ہاں ایک دعا تھی کہ میں وہی کرتا لیکن اللہ کا ایک نیک بندہ مجھ سے پہلے اس دعا کو مانگ چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے ذبح ہونے کی تکلیف دور کردی تو ان سے فرمایا گیا کہ تو مانگ جو مانگے گا دیا جائے گا۔ تو حضرت اسحاق نے فرمایا واللہ شیطان کے بہکانے سے پہلے ہی میں اسے مانگ لوں گا اللہ جو شخص اس حالت میں مرا ہو کہ اس نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو اسے بخش دے اور جنت میں پہنچا دے یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند اً غریب اور منکر ہے اور اس کے ایک راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں اور مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ یہ الفاظ کہ (جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے) آخر تک راوی اپنے نہ ہوں جنہیں انہوں نے حدیث میں داخل کردئیے ہیں۔ ذبیح اللہ تو حضرت اسماعیل ؑ ہیں، محل ذبح منیٰ ہے اور وہ مکہ میں ہے اور حضرت اسماعیل یہیں تھے نہ کہ حضرت اسحاق وہ تو شہر کنعان میں تھے جو شام ہے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے پیارے بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیتے ہیں جناب باری سے ندا آتی ہے کہ بس ابراہیم تم اپنے خواب کو پورا کرچکے۔ سدی سے روایت ہے کہ جب خلیل اللہ نے ذبیح اللہ کے حلق پر چھری پھیری تو گردن تانبے کی ہوگئے اور نہ کٹی اور یہ آواز آئی۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔ یعنی سختیوں سے بچالیتے ہیں اور چھٹکارا کردیتے ہیں۔ جیسے فرمایا اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ چھٹکارے کی صورت نکال ہی دیتا ہے اور اسے ایسی طرح روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان و وہم میں بھی نہ ہو۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی کافی ہے اللہ اپنے کاموں کو مکمل کرکے چھوڑتا ہے ہر چیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ فعل پر قدرت پانے سے پہلے ہی حکم منسوخ ہوسکتا ہے ہاں معتزلہ اسے نہیں مانتے۔ وجہ استدلال بہت ظاہر ہے اس لیے کہ خلیل اللہ کو اپنے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم ہوتا ہے اور پھر ذبح سے پہلے ہی فدئیے کے ساتھ منسوخ کردیا جاتا ہے۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ صبر کا اور بجا آوری حکم پر مستعدی کا ثواب مرحمت فرما دیا جائے۔ اسی لیے ارشاد ہوا یہ تو صرف ایک آزمائش تھی کھلا امتحان تھا کہ ادھر حکم ہوا ادھر تیاری ہوئی۔ اسی لیے جناب خلیل اللہ ؑ کی تعریف میں قرآن میں ہے ابراہیم بڑا ہی وفادار تھا۔ بڑے ذبیح کے ساتھ ان کا فدیہ ہم نے دیا۔ سفید رنگ بڑی آنکھوں اور بڑے سینگوں والا عمدہ خوراک سے پلا ہوا منیڈھا فدئیے میں دیا گیا جو ژیر ببول کے درخت سے بندھا ہوا ملا۔ جو جنت میں چالیس سال چرتا رہا۔ منیٰ میں ژیر کے پاس جو چٹان ہے اس پر یہ جانور ذبح کیا گیا یہ چیختا ہوا اوپر سے اترا تھا۔ یہی وہ مینڈھا ہے جسے ہابیل نے اللہ کی راہ میں قربان کیا تھا۔ اس کی اون قدرے سرخی مائل تھی اسکا نام جریر تھا۔ بعض کہتے ہیں مقام ابراہیم پر اسے ذبح کیا۔ کوئی کہتا ہے مٹی میں نحر پر۔ ایک شخص نے اپنے تئیں راہ اللہ میں ذبح کرنے کی منت مانی تھی تو حضرت ابن عباس ؓ نے اسے ایک سو اونٹ ذبح کرنے کا فتویٰ دیا تھا لیکن پھر فرماتے تھے کہ اگر میں اسے ایک بھیڑ ذبح کرنے کو کہتا تب بھی کافی تھا کیونکہ کتاب اللہ میں ہے کہ حضرت ذبیح اللہ کا فدیہ اسی سے دیا گیا تھا۔ اکثر لوگوں کا یہی قول ہے بعض کہتے ہیں یہ پہاڑی بکرا تھا۔ کوئی کہتا ہے نر ہرن تھا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عثمان ؓ کو بلا کر حضور ﷺ نے فرمایا میں نے بھیڑ کے سینگ بیت اللہ شریف میں داخلے کے وقت اندر دیکھے تھے اور مجھے یاد نہ رہا کہ میں تجھے ان کے ڈھانک دینے کا حکم دوں جاؤ اسے ڈھک دو بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہئے جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرلے۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں اس بھیڑ کے سینگ بیت اللہ میں ہی رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ بیت اللہ میں آگ لگی اس میں وہ جل گئے، یہ واقعہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل تھے اسی وجہ سے ان کی اولاد قریش تک یہ سینگ برابر اور مسلسل چلے آئے یہاں تک کہ حضور ﷺ کو اللہ نے مبعوث فرمایا۔ واللہ اعلم۔ " ان آثار کا بیان جن میں ذبیح اللہ کا نام ہے " ابو میسرہ فرماتے ہیں حضرت یوسف ؑ نے بادشاہ سے فرمایا کیا تو میرے ساتھ کھانا چاتا ہے میں یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں (عبید بن عمیر) حضرت موسیٰ ؑ نے جناب باری میں عرض کی کہ اے اللہ کیا وجہ ہے جو لوگوں کی زبانوں پر یہ چڑھا ہوا ہے کہ ابراہیم اسمعیل اور یعقوب کے اللہ کی قسم، تو جواب ملا اس لئے ابراہیم نے تو ہر ہر چیز پر مجھی کو ترجیح دی اور اسحاق ؑ نے اپنے تئیں میری راہ میں ذبح ہونے کے لئے سپرد کردیا پھر بھلا اور چیزیں اسے پیش کردینا کیا مشکل تھیں اور یعقوب کو میں جوں جوں بلاؤں میں ڈالتا گیا اس کے حسن ظنی میرے ساتھ بڑھتی ہی رہی۔ ابن مسعود کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے فخراً اپنے باپ دادوں کا نام لیا تو آپ نے فرمایا قابل فخر باپ دادا تو حضرت یوسف کے تھے جو یعقوب بن اسحاق اور ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ تھے۔ عکرمہ، ابن عباس، خود عباس، علی سعید بن جبیر، مجاہد، شعبی، عبید بن عمر، ابو میسرہ، زید بن اسلم، عبداللہ بن شفیق، زہری، قاسم بن ابو برزہ، محکول، عثمان بن ابی عاص، سدی، حسن، قتادہ، ابو الہذیل، ابن سابط، کعب احبار رحمہم اللہ اجمعین، ان سب کا یہی قول ہے اور ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ؑ تھے۔ صحیح علم تو اللہ کو ہی ہے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب بزرگوں کے استاد حضرت کعب احبار ہیں۔ یہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہوئے تھے اور کبھی کبھی حضرت عمر ؓ کو قدیمی کتابوں کی باتیں سناتے تھے، لوگوں نے اسے رخصت سمجھ کر پھر ان سے ہر ایک بات بیان کرنی شروع کردی اور صحیح غلط کی تمیز اٹھ گئی حق تو یہ ہے کہ اس امت کو اگلی کتابوں کی ایک بات کی بھی حاجت نہیں۔ بغوی نے کچھ اور نام بھی صحابہ تابعین کے بتلائے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے اگر وہ حدیث صحیح ہوتی تو جھگڑے کا فیصلہ تھا مگر وہ حدیث صحیح نہیں اس میں دو راوی ضعیف ہیں۔ حسن بن دینار متروک ہیں اور علی بن زید بن جدعان منکر الحدیث ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہے یہ بھی موقف، چناچہ ایک سند سے یہ مقولہ حضرت ابن عباس کا مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے۔ واللہ اعلم۔ اب ان آثار کو سنئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی تھے اور یہی ٹھیک اور بالکل درست بھی ہے۔ ابن عباس ؓ یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہودی حضرت اسحاق کا نام جھوٹ موٹ لیتے ہیں ابن عمر مجاہد شعبی حسن بصری محمد بن کعب قرظی، خلیفہ المسلمین حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کے سامنے جب محمد بن قرظی نے یہ فرمایا اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی کہ ذبح کے ذکر کے بعد قرآن میں خلیل اللہ کو حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بیان ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا ہوگا یعقوب نامی جب ان کے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت دی گی تھی پھر باوجود ان کے ہاں لڑکا نہ ہوں کے اس سے پہلے ہی ان کے ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے ؟ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا یہ بہت صاف دلیل ہے میرا ذہن یہاں نہیں پہنچا تھا گو یہ میں بھی جانتا تھا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی ہیں پھر شاہ اسلام نے شام کے ایک یہودی عالم سے پوچھا جو مسلمان ہوگئے تھے کہ تم اس بارے میں کیا علم رکھتے ہو انہوں نے فرمایا امیر المسلمین سچ تو یہی ہے کہ جن کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسماعیل ہی تھے لیکن چونکہ عرب ان کی اولاد میں سے ہیں تو یہ بزرگی ان کی طرف لوٹتی ہے اس حسد کے بارے میں یہودیوں نے اسے بدل دیا اور حضرت اسحاق کا نام لے دیا۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ہمارا ایمان ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق دونوں ہی طاہر و طیب اور اللہ کے سچے فرمانبردار تھے۔ کتاب الزہد میں ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے والد سے جب یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ ذبح ہونے والے حضرت اسماعیل ہی تھے۔ حضرت علی حضرت ابن عمر ابو الطفیل، سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، شعبی، محمد بن کعب، ابو جعفر محمد بن علی ابو صالح ؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ امام بغوی نے اور بھی صحابہ اور تابعین کے نام گنوائے ہیں۔ ایک غریب حدیث بھی اسی کی تائید میں مروی ہے اس میں ہے کہ شام میں امیر معاویہ کے سامنے یہ بحث چھڑی کہ ذبیح اللہ کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا خوب ہوا جو یہ معاملہ مجھ جیسے باخبر شخص کے پاس آیا سنو ہم آنحضرت ﷺ کے پاس تھے جب ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کی راہ میں دو ذبح ہونے والوں کی نسل کے رسول ﷺ مجھے بھی مال غنیمت میں سے کچھ دلوایئے اس پر آپ ہنس دیئے۔ ایک تو ذبح اللہ حضور ﷺ کے والد عبداللہ تھے دوسرے حضرت اسمعیل جن کی نسل میں سے آپ ہیں۔ عبداللہ کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے جب چاہ زمزم کھودا تو نذر مانی تھی کی اگر یہ کام آسانی سے پورا ہوگیا تو اپنے ایک لڑکے کو راہ اللہ میں ذبح کروں گا جب کام ہوگیا اور قرعہ اندازی کی گئی کہ کس بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کریں تو حضور ﷺ کے والد عبداللہ کا نام نکلا۔ ان کے ننھیال والوں نے کہا آپ ان کی طرف سے ایک سو اونٹ راہ اللہ ذبح کردیں چناچہ وہ ذبح کردیئے گئے اور اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے ابن جریر میں یہ روایت موجود ہے اور مغازی امویہ میں بھی امام ابن جریر نے حضرت اسحاق کے ذبیح اللہ ہونے کی ایک دلیل تو یہ پیش کی یہ کہ جس علیم بچے کی بشارت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت اسحاق ہیں قرآن میں اور جگہ ہے وبشر و بغلام علیم اور حضرت یعقوب کی بشارت کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور ممکن ہے کہ یعقوب کے ساتھ ہی کوئی اور اولاد بھی ہوئی ہو اور کعبتہ اللہ میں سینگوں کی موجودگی کے بارے میں فرماتے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ بلادکنعان سے لا کر یہاں رکھے گئے ہوں اور بعض لوگوں سے حضرت اسحاق کے نام کی صراحت بھی آئی ہے، لیکن یہ سب باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں۔ ہاں حضرت اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے پر محمد بن کعب قرظی کا استدلال بہت صاف اور قوی ہے۔ واللہ اعلم۔ پہلے ذبیح اللہ حضرت اسمعیل ؑ کے تولد ہونے کی بشارت دی گئی تھی یہاں اس کے بعد ان کے بھائی حضرت اسحاق کی بشارت دی جا رہی ہے۔ سورة ہود اور سورة حجر میں بھی اس کا ذکر گذر چکا ہے۔ نبیاً حال مقدرہ ہے یعنی وہ نبی صالح ہوگا۔ ابن عباس فرماتے ہیں ذبیح اللہ اسحاق تھے اور یہاں نبوت حضرت اسحاق کو بشارت ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ کے بارے میں فرمان ہے کہ ہم نے انہیں اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا۔ حالانکہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے بڑے تھے تو یہاں بھی ان کی نبوت کی بشارت ہے۔ پس یہ بشارت اس وقت دی گئی جبکہ امتحان ذبح میں وہ صابر ثابت ہوئے۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ بشارت دو مرتبہ دی گئی پیدائش سے کچھ قبل اور نبوت سے کچھ قبل۔ حضرت قتادہ سے بھی یہی مروی ہے۔ ان پر اور اسحاق پر ہماری برکتیں ہم نے نازل فرمائیں، ان کی اولاد میں ہر قسم کے لوگ ہیں نیک بھی بد بھی۔ جیسے حضرت نوح ؑ سے فرمان ہوا تھا کہ اے نوح ہماری سلام اور برکت کے ساتھ تواتر۔ تو بھی اور تیرے ساتھ والے بھی اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ہم فائدے پہنچائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچیں گے۔