اس صفحہ میں سورہ An-Naml کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النمل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ”یعنی وہ لوگ جو فوت ہوچکے ہیں ‘ چاہے وہ اولیاء اللہ ہوں یا کوئی اور ‘ اس دنیا سے جانے کے بعد وہ عالم برزخ میں ہیں اور وہاں انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔
آیت 66 بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِقف ”یعنی یہ لوگ آخرت کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْہَاقف بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ ”اگرچہ یہ لوگ زبانی طور پر آخرت کا اقرار بھی کرتے ہیں اور دوبارہ جی اٹھنے پر بظاہر ایمان بھی رکھتے ہیں ‘ لیکن عملاً وہ اس کے منکر ہیں۔ عملاً انہیں آخرت کی زندگی کو سنوارنے یا قیامت کے احتساب سے بچنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس دنیا میں اپنے کل کی فکر انسان کو ہر وقت دامن گیر رہتی ہے ‘ کہ کل کیا کھانا ہے اور باقی ضروریات کیسے پوری کرنی ہیں۔ اس لیے کہ اسے کل کے آنے پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر اسے واقعی یقین ہو کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ ہونا ہے اور یہ کہ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے تو اس کے لیے وہ لازماً فکر مند بھی ہوگا اور اسے بہتر بنانے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن کسی انسان کو عملاً اگر اس کی فکر نہیں ہے اور وہ اس کے لیے کوشش بھی نہیں کر رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے بارے میں یقین نہیں ہے۔
آیت 70 وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلَا تَکُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ ”مکہ کے ماحول میں چونکہ رسول اللہ ﷺ کو شدید مخالفت اور دباؤ کا سامنا تھا ‘ اس لیے مکی سورتوں میں یہ مضمون بار بار دہرایا گیا ہے۔ سورة النحل کی آیت 127 میں یہ مضمون بالکل انہی الفاظ میں آیا ہے ‘ جبکہ سورة الشعراء میں اس حوالے سے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے : لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ”اے نبی ﷺ ! شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے“۔ بہر حال مشرکین مکہ کے مخالفانہ رویے ّ کے باعث حضور ﷺ کو بار بار تسلی دی جاتی تھی کہ آپ ﷺ نے ان تک ہمارا پیغام پہنچا کر ان پر حجت قائم کردی ہے اور یوں آپ ﷺ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اب آپ ﷺ ان کی پروا نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں رنجیدہ ہوں۔ یہ لوگ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ ہماری تدابیر ان کی چالوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ہماری قدرت کے سامنے ان کی سازشیں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔
آیت 71 وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ”یعنی آپ ہمیں مسلسل دھمکیاں دیے جا رہے ہیں کہ اگر ہم آپ کی اطاعت نہیں کریں گے تو ہم پر عذاب آجائے گا۔ چناچہ اگر آپ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو ذرا یہ بھی بتادیں کہ وہ عذاب کب آئے گا ؟
آیت 72 قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ رَدِفَ لَکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ تَسْتَعْجِلُوْنَ ””رَدِفَ“ کے معنی گھوڑے پر دوسری سواری کے طور پر سوار ہونے کے ہیں۔ اس طرح پچھلا سوار اپنے آگے والے کی پیٹھ کے ساتھ جڑ کر بیٹھنے کی وجہ سے ”ردیف“ کہلاتا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم جس عذاب کے بارے میں بےصبری سے بار بار پوچھ رہے ہو وہ اب تمہاری پیٹھ کے ساتھ آ لگا ہے ‘ بس اب تمہاری شامت آنے ہی والی ہے۔ ان الفاظ میں غالباً غزوۂ بدر کی طرف اشارہ ہے جس میں مشرکین مکہ کو عذاب الٰہی کی پہلی قسط ملنے والی تھی۔
آیت 73 وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ ”یعنی ابھی تک اگر تم لوگوں پر عذاب نہیں آیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا مظہر ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ بہت فضل اور کرم کا معاملہ کرتا ہے۔
آیت 74 وَاِنَّ رَبَّکَ لَیَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ”اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ وہ اپنی زبانوں سے کیا کہتے ہیں اور ان کے دلوں میں کیا جذبات ہیں۔ ان کے دل تو گواہی دے چکے تھے کہ محمد ﷺ سچے ہیں اور قرآن بھی برحق ہے ‘ لیکن وہ محض حسد ‘ ّ تکبر اور تعصب کے باعث انکار پر اڑے ہوئے تھے۔ اس حوالے سے ان کی کیفیت فرعون اور قوم فرعون کی کیفیت سے مشابہ تھی جس کا حال اسی سورت کی آیت 14 میں اس طرح بیان ہوا ہے : وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط ”اور انہوں نے ان آیاتِ الٰہی کا انکار کیا ظلم اور تکبر کے ساتھ جبکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا“۔ سورة البقرۃ کی آیت 146 اور سورة الانعام کی آیت 20 میں علماء اہل کتاب کی بالکل یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمْ یعنی وہ اللہ کے رسول ﷺ اور قرآن کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔
آیت 75 وَمَا مِنْ غَآءِبَۃٍ فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ”گویا اللہ تعالیٰ کے علم قدیم ہی کو یہاں کتاب مبین کہا گیا ہے۔
آیت 76 اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَکْثَرَ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ”تورات کا نزول قرآن سے دو ہزار سال پہلے ہوا تھا۔ اصل کتاب مدتوں پہلے گم ہوچکی تھی ‘ پھر ایک عرصے بعد اسے یادداشتوں کی مدد سے دوبارہ مرتب کیا گیا اور بنی اسرائیل نے اپنی من پسند روایات کے ذریعے سے بہت سی غلط باتیں اللہ سے منسوب کردیں۔ جیسے اقبال نے کہا ہے : ع ”یہ امتّ روایات میں کھو گئی !“ بہر حال قرآن نے ہرچیز کو کھول کر بیان کردیا اور حقیقت ہر پہلو سے منکشف ہوگئی۔