سورہ جاثیہ (45): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Jaathiya کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجاثية کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ جاثیہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Jaathiya
سُورَةُ الجَاثِيَةِ
صفحہ 500 (آیات 14 سے 22 تک)

قُل لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يَغْفِرُوا۟ لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ ٱللَّهِ لِيَجْزِىَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ مَنْ عَمِلَ صَٰلِحًا فَلِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَسَآءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحُكْمَ وَٱلنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَفَضَّلْنَٰهُمْ عَلَى ٱلْعَٰلَمِينَ وَءَاتَيْنَٰهُم بَيِّنَٰتٍ مِّنَ ٱلْأَمْرِ ۖ فَمَا ٱخْتَلَفُوٓا۟ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِى بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ فِيمَا كَانُوا۟ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ثُمَّ جَعَلْنَٰكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ ٱلْأَمْرِ فَٱتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا۟ عَنكَ مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا ۚ وَإِنَّ ٱلظَّٰلِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۖ وَٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلْمُتَّقِينَ هَٰذَا بَصَٰٓئِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ أَمْ حَسِبَ ٱلَّذِينَ ٱجْتَرَحُوا۟ ٱلسَّيِّـَٔاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ سَوَآءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ وَخَلَقَ ٱللَّهُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
500

سورہ جاثیہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ جاثیہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے، اُن کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul lillatheena amanoo yaghfiroo lillatheena la yarjoona ayyama Allahi liyajziya qawman bima kanoo yaksiboona

آیت 14 { قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰہِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ اہل ِایمان سے کہہ دیجیے کہ وہ ذرا درگزر کریں ان لوگوں سے جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے“ اس آیت کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورت مکی دور کے تقریباً وسط میں نازل ہوئی ہے۔ گویا اس وقت حضور ﷺ کی دعوت کو شروع ہوئے پانچ چھ سال ہی ہوئے تھے ‘ یعنی ابھی اہل ِمکہ ّپر اتمامِ حجت نہیں ہوا تھا اور ابھی ان کے لیے مزید مہلت درکار تھی۔ چناچہ اہل ایمان کو تلقین کی جارہی ہے کہ وہ مشرکین کے مخالفانہ روییّسے دلبرداشتہ نہ ہوں۔ یہ جہالت میں ڈوبے ہوئے گمراہ لوگ ہیں ‘ انہیں ”ایام اللہ“ کے بارے میں کوئی کھٹکا اور اندیشہ ہے ہی نہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ جس عذاب نے ماضی کی بڑی بڑی اقوام کو نیست و نابود کردیا تھا وہ ان پر بھی آسکتا ہے۔ لہٰذا ا بھی آپ لوگ ان سے درگزر کریں اور ان کے معاملے میں جلدی کرتے ہوئے یہ نہ سوچیں کہ نہ معلوم اللہ نے انہیں اس قدر ڈھیل کیوں دے رکھی ہے اور یہ کہ ان پر عذاب موعود آ کیوں نہیں جاتا ؟ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ابھی مزید مہلت دینا چاہتا ہے۔ { لِیَجْزِیَ قَوْمًام بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ”تاکہ اللہ بدلہ دے ایک قوم کو ان کی اپنی کمائی کے مطابق۔“

اردو ترجمہ

جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا پھر جانا تو سب کو اپنے رب ہی کی طرف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Man AAamila salihan falinafsihi waman asaa faAAalayha thumma ila rabbikum turjaAAoona

آیت 15 { مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَاز ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ } ”جس کسی نے اچھا کام کیا تو اس نے اپنے ہی بھلے کے لیے کیا ‘ اور جس کسی نے برا کام کیا تو اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا ‘ پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹا دیے جائو گے۔“

اردو ترجمہ

اِس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی اُن کو ہم نے عمدہ سامان زیست سے نوازا، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad atayna banee israeela alkitaba waalhukma waalnnubuwwata warazaqnahum mina alttayyibati wafaddalnahum AAala alAAalameena

آیت 16 { وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ } ”اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کی کتاب ‘ حکومت اور نبوت“ { وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } ”اور ہم نے انہیں عطا کیں بہت سی پاکیزہ چیزیں ‘ اور انہیں ہم نے تمام جہان کی قوموں پر فضیلت دی۔“ ان لوگوں کا نسبی تعلق اگرچہ حضرت ابراہیم سے ہے ‘ لیکن جس قوم کا نام بنی اسرائیل ہے وہ حضرت یعقوب کی اولاد ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ”اسرائیل“ اللہ کا بندہ تھا اور آپ علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کی اولاد سے بارہ قبیلے وجود میں آئے جو بنی اسرائیل کہلائے۔ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کو فضیلت سے نوازے جانے کا ذکر تکرار سے آیا ہے۔ اس فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں نبوت کا وہ سلسلہ جو دو پیغمبروں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون سے شروع ہوا ‘ چودہ سو برس تک بغیر کسی وقفے اور انقطاع کے جاری رہا۔ اس دوران ان کے ہاں پے در پے نبی آئے اور نبوت کی کڑی کے ساتھ کڑی یوں ملتی گئی کہ ایک مسلسل زنجیر بن گئی۔ پھر جس طرح اس زنجیر کا آغاز دو پیغمبروں سے ہوا تھا اسی طرح اس کا اختتام بھی دو پیغمبروں یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ﷺ پر ہوا۔ بہر حال جتنے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف آئے ‘ دنیا میں کسی اور قوم کی طرف اتنے انبیاء نہیں آئے۔ اقوامِ عالم پر بنی اسرائیل کی یہ فضیلت آج بھی قائم ہے۔ بنی اسرائیل کے حوالے سے ہمارے لیے اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جب دین کی طرف پیٹھ پھر کر ‘ دنیا میں منہمک ہوگئے ‘ عیاشیوں میں پڑگئے اور آخرت کو بھول گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضیلت کی حامل اس قوم پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی گئی : { وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ } اور اس فیصلے کا اعلان قرآن میں دو مرتبہ البقرۃ : 61 اور آلِ عمران : 112 کیا گیا۔ چناچہ بنی اسرائیل تاریخ میں آج ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل اور احسان فرمایا کہ ہمیں اس نے اپنے آخری رسول ﷺ کی امت بنایا اور اپنی آخری کتاب سے نوازا۔ مگر ہم نے بھی جب دین کی طرف سے پیٹھ پھیرلی اور آخرت کو بھول کر دنیا ہی کو اپنا اوڑھنا ‘ بچھونا بنا لیا تو ہمارے حصے میں بھی ویسی ہی ذلت و مسکنت آئی۔ چناچہ آج دنیا میں ڈیڑھ سو کروڑ مسلمان ہیں مگر اقوامِ عالم کے درمیان ان کی حیثیت یہ ہے کہ ع ”کس نمی پر سد کہ بھیا کیستی ؟“ آج بین الاقوامی معاملات کے بارے میں کسی بھی فورم پر مسلمان ممالک کی رائے پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی جاتی۔ بلکہ اب تو مسلمانوں کے اپنے معاملات کی باگ ڈور بھی غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری انگریزی تقریر Turmoil in Muslim Ummah سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ‘ جبکہ اردو میں تو اس موضوع پر میری بہت سی تقاریر دستیاب ہیں۔

اردو ترجمہ

اور دین کے معاملہ میں اُنہیں واضح ہدایات دے دیں پھر جو اختلاف اُن کے درمیان رو نما ہوا وہ (نا واقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آ جانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے اللہ قیامت کے روز اُن معاملات کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waataynahum bayyinatin mina alamri fama ikhtalafoo illa min baAAdi ma jaahumu alAAilmu baghyan baynahum inna rabbaka yaqdee baynahum yawma alqiyamati feema kanoo feehi yakhtalifoona

آیت 17 { وَاٰتَیْنٰہُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ } ”اور ہم نے انہیں عطا کیں دین کے معاملہ میں واضح ہدایات۔“ یہاں ”امر“ سے مراد دین و شریعت ہے۔ یعنی ان کے انبیاء کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام ضروری ہدایات مسلسل ملتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہیں تورات ‘ زبور اور انجیل جیسی کتابیں بھی عطا گئیں۔ { فَمَا اخْتَلَفُوْٓا اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ لا بَغْیًام بَیْنَہُمْ } ”اور انہوں نے نہیں اختلاف کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آچکا تھا ‘ محض باہمی ِضدم ّضدا کے سبب سے۔“ کتاب اللہ کی واضح تعلیمات ان لوگوں تک پہنچ چکی تھیں۔ اس کے باوجود ضد بازی کی بنیاد پر ان کے اندر شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور انہی اختلافات کی وجہ سے یہ قوم مختلف گروہوں میں بٹ گئی۔ پہلے یہودی اور نصاریٰ الگ الگ ہوئے اور پھر ان دونوں گروہوں کے اندر باہمی ضدم ضدا کے باعث مزید کئی کئی فرقے بن گئے۔ دراصل کسی بھی قوم کی صفوں میں اختلاف کی بنیادی وجہ غلبہ حاصل کرنے کی وہ خواہش urge to dominate ہوتی ہے جو اس کے ہر دھڑے میں پائی جاتی ہے۔ ان اختلافات سے تفرقہ بازی جنم لیتی ہے جس کے باعث بالآخر اس قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ { اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } ”یقینا آپ ﷺ کا رب فیصلہ کر دے گا ان کے مابین قیامت کے دن ان تمام باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔“

اردو ترجمہ

اس کے بعد اب اے نبیؐ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma jaAAalnaka AAala shareeAAatin mina alamri faittabiAAha wala tattabiAA ahwaa allatheena la yaAAlamoona

آیت 18 { ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا }“ پھر اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کو قائم کردیا دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ شریعت پر ‘ تو آپ اسی کی پیروی کریں“ حضرت آدم سے لے کر نبی آخر الزماں ﷺ تک تمام انبیاء رسل علیہ السلام اسی دین کی دعوت کے لیے مبعوث ہوئے۔ سورة الشوریٰ میں اس نکتے کی وضاحت ہم پڑھ چکے ہیں : { شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی…} آیت 13 ”اے مسلمانو ! اس نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح علیہ السلام کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی طرف کی ہے اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم علیہ السلام کو ‘ موسیٰ علیہ السلام ٰ کو ‘ اور عیسیٰ علیہ السلام ٰ کو…“ بہر حال ”امر اللہ“ یعنی اللہ کا دین تو شروع سے ایک ہی ہے۔ البتہ ہر زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے شریعتیں مختلف رہی ہیں ‘ مثلاً شریعت ِموسوی علیہ السلام کے بعض احکام شریعت ِمحمدی ﷺ کے بعض احکام سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم لفظ ”شَرِیْعَۃٍ“ کے حوالے سے یہ ہے کہ اے محمد ﷺ بنی اسرائیل کے بعد ہم نے آپ ﷺ کو اپنے دین کا آخری اور تکمیلی ایڈیشن شریعت ِمحمدی ﷺ کے نام سے اس سند کے ساتھ عطا کیا ہے کہ : { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا } المائدۃ : 3 ”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے اور تم پر اتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے“۔ چناچہ اب آپ اور آپ کے پیروکار اسی شریعت کا اتباع کریں۔ { وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ }“ اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے جن کے پاس کوئی علم ہی نہیں ہے۔“

اردو ترجمہ

اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahum lan yughnoo AAanka mina Allahi shayan wainna alththalimeena baAAduhum awliyao baAAdin waAllahu waliyyu almuttaqeena

آیت 19 { اِنَّہُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا } ”یہ لوگ اللہ کے مقابلے میں آپ کے کچھ بھی کام نہیں آسکیں گے۔“ یہ مضمون قرآن میں متعددبار آچکا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں یوں فرمایا گیا : { وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً وَلَوْلَآ اَنْ ثَـبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیْلاً اِذًا لَّاَذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا } ”اور یہ لوگ اس بات پر ُ تلے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کو پھسلا دیں اس وحی سے جو ہم نے آپ ﷺ کی طرف کی ہے تاکہ اس کے علاوہ آپ ﷺ کوئی اور چیز گھڑ کر ہم سے منسوب کردیں ‘ اور اگر آپ ﷺ ایسا کرتے تب تو یہ لوگ آپ ﷺ کو اپنادوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم آپ ﷺ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو عین ممکن تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک ہی جاتے۔ اگر ایساہو جاتا تو تب ہم آپ ﷺ کود گنی سزا دیتے زندگی میں اور دگنی سزا دیتے موت پر ‘ پھر نہ پاتے آپ ﷺ اپنے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار۔“ { وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ } ”اور یقینا یہ ظالم مشرک لوگ ایک دوسرے کے مدد گار ہیں ‘ جبکہ اللہ مددگار ہے متقین کا۔“

اردو ترجمہ

یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت اُن لوگوں کے لیے جو یقین لائیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatha basairu lilnnasi wahudan warahmatun liqawmin yooqinoona

آیت 20 { ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ } ”یہ ہیں آنکھیں کھولنے والی باتیں لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو ان پر یقین کریں۔“

اردو ترجمہ

کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم اُنہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ بہت بُرے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am hasiba allatheena ijtarahoo alssayyiati an najAAalahum kaallatheena amanoo waAAamiloo alssalihati sawaan mahyahum wamamatuhum saa ma yahkumoona

آیت 21 { اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } ”جو لوگ ُ بری باتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کردیں گے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ؟“ { سَوَآئً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ } ”کہ ان کی زندگی اور موت ایک جیسی ہوجائے ؟ بہت برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں !“ قیامت کے حساب اور آخرت کی زندگی کے بارے میں عقلی اور منطقی سطح پر یہ ایک مضبوط دلیل ہے۔ اگر دنیا کے نیکو کاروں کو کوئی اجر و انعام نہ ملے ‘ مجرموں کو اپنے جرائم کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور نیک و بد سب برابر ہوجائیں تو اس سے بڑا ظلم بھلا اور کیا ہوگا ؟ دنیا میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جو حرام و حلال کی تمیز ختم کر کے اور جائز و ناجائز کی پابندیوں سے بےنیاز ہو کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے فائدے کے لیے کسی کا حق نہیں مارتے۔ وہ فاقوں سے رہنا برداشت کرلیتے ہیں مگر حرام نہیں کھاتے۔ اب فرض کریں کہ اگر دنیا کی زندگی ہی آخری زندگی ہو ‘ نہ آخرت ہو اور نہ ہی مرنے کے بعد بےلاگ حساب و کتاب کا کوئی مرحلہ درپیش ہو ‘ نہ نیک اور دیانت دار لوگوں کے لیے کوئی جزا ہو اور نہ برے لوگوں کے لیے کوئی سزا ‘ تو ایسی صورت میں قاتلوں ‘ لٹیروں اور ظالموں کے تو گویا وارے نیارے ہوگئے ‘ جبکہ نیک ‘ شریف اور دیانتدار قسم کے لوگ سرا سر گھاٹے میں رہ گئے۔ اس لیے اگر قیامت قائم نہیں ہوتی ‘ نیکوکاروں کو ان کے نیک اعمال کی جزا نہیں ملتی اور بدکاروں کو ان کے کرتوتوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑتا تو یہ بنی نوع انسان کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ چناچہ جو آخرت کو نہیں مانتا وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت ِعدل کا ہی منکر ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے لوگوں پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakhalaqa Allahu alssamawati waalarda bialhaqqi walitujza kullu nafsin bima kasabat wahum la yuthlamoona

آیت 22 { وَخَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ } ”اور اللہ نے تو آسمان اور زمین کو حق عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ پورا پورا بدلہ دیا جائے ہر جان کو جو کچھ اس نے کمایا ہو ‘ اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو۔“

500