اس صفحہ میں سورہ Al-Israa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإسراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 59 وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ اللہ تعالیٰ نے حسی معجزات دکھانے صرف اس لیے بند کردیے ہیں کہ سابقہ قوموں کے لوگ ایسے معجزات کو دیکھ کر بھی کفر پر ڈٹے رہے اور ایمان نہ لائے۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورة الانعام اور اس کے بعد نازل ہونے والی مکی سورتوں میں تسلسل سے دہرایا جا رہا ہے۔وَاٰتَيْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا قوم ثمود کو ان کے مطالبے پر اونٹنی کا بصیرت افروز معجزہ دکھایا گیا مگر انہوں نے اس واضح معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی حضرت صالح پر ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کو مٹی سے زندہ پرندے بنانے اور ”قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ“ کہہ کر مردوں کو زندہ کرنے تک کے معجزات دیے گئے ‘ مگر کیا انہیں دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے ؟وَمَا نُرْسِلُ بالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًانشانیاں یا معجزے بھیجنے کا مقصد تو لوگوں کو خبردار کرنا ہوتا ہے سو یہ مقصد قرآن کی آیات بخوبی پورا کر رہی ہیں۔ اس کے بعد اب اور کون سی نشانیوں کی ضرورت باقی ہے ؟ اگلی آیت میں یہی بات تین مثالوں سے مزید واضح کی گئی ہے کہ یہ لوگ کس طرح قرآن کی آیات کے ساتھ بحث برائے بحث اور انکار کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور یہ کہ اللہ نے حسی معجزات دکھانا کیوں بند کردیے ہیں۔
آیت 60 وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاط بالنَّاسِ قرآن حکیم کی بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ‘ مثلاً : وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَآءِہِمْ مُّحِیْطٌ البروج ”اور اللہ ان کا ہر طرف سے احاطہ کیے ہوئے ہے“۔ یہ لوگ جب ایسی آیات سنتے ہیں تو ڈرنے کی بجائے فضول بحث پر اتر آتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ کہاں ہے اللہ ؟ ہمارا احاطہ کیوں کر ہوا ہے ؟اگر فلسفیانہ پہلو سے دیکھا جائے تو اس آیت میں ”حقیقت و ماہیت وجود“ کے موضوع سے متعلق اشارہ پایا جاتا ہے جو فلسفے کا مشکل ترین مسئلہ ہے اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا نہیں ہے یعنی ایک وجود خالق کا ہے وہ ہر جگہ ہر آن موجود ہے اور ایک وجود مخلوق یعنی اس کائنات کا ہے۔ اب خالق و مخلوق کے مابین ربط کیا ہے ؟ اس سلسلے میں کچھ لوگ ”ہمہ اوست“ Pantheism کے قائل ہوگئے۔ ان کے خیال کے مطابق یہ کائنات ہی خدا ہے خدا نے ہی کائنات کا روپ دھار لیا ہے جیسے خدا خود ہی انسانوں کا روپ دھار کر ”اوتار“ کی صورت میں زمین پر آجاتا ہے۔ یہ بہت بڑا کفر اور شرک ہے۔ دوسری طرف اگر یہ سمجھیں کہ اللہ کا وجود اس کائنات میں نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا وجود کہیں الگ ہے اور وہ نعوذ باللہ کہیں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیں بس اس قدر سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کا وجودمطلق Absolute ہے۔ وہ حدود وقیود زمان و مکان کسی سمت یا جہت کے تصور سے ماوراء وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ یہاں پر لفظ ”رؤیا“ خواب کے معنی میں نہیں آیا بلکہ اس سے رُؤیت بصری مراد ہے۔ انسان اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتا ہے اس پر بھی ”رؤیا“ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں حضور کو جو مشاہدات کرائے تھے اور جو نشانیاں آپ کو دکھائی تھیں ان کی تفصیل جب کفار مکہ نے سنی تو یہ معاملہ ان کے لیے ایک فتنہ بن گیا۔ وہ نہ صرف خود اس کے منکر ہوئے ‘ بلکہ اس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر انہوں نے پوری شد و مد سے یہ پرچار شروع کردیا کہ محمد پر جنون کے اثرات ہوچکے ہیں معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ اس زمانے میں جب مکہ سے بیت المقدس پہنچنے میں پندرہ دن لگتے تھے یہ دعویٰ انتہائی ناقابل یقین معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شخص راتوں رات نہ صرف بیت المقدس سے ہو آیا ہے بلکہ آسمانوں کی سیر بھی کر آیا ہے۔ چناچہ انہوں نے موقع غنیمت سمجھ کر اس موضوع کو خوب اچھالا اور مسلمانوں سے بڑھ چڑھ کر بحث مباحثے کیے۔ اس طرح نہ صرف یہ بات کفار کے لیے فتنہ بن گئی بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی ایک آزمائش قرار پائی۔ جب یہی ناقابل یقین بات ان لوگوں نے حضرت ابوبکر سے کی اور آپ سے تبصرہ چاہا تو آپ نے بلا توقف جواب دیا کہ اگر واقعی حضور نے ایسا فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے کیونکہ جب میں یہ مانتا ہوں کہ آپ کے پاس آسمانوں سے ہر روز فرشتہ آتا ہے تو مجھے آپ کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے میں آخر کیونکر تامل ہوگا کہ آپ راتوں رات آسمانوں کی سیر کر آئے ہیں ! اسی بلا تامل تصدیق کی بنا پر اس دن سے حضرت ابوبکر کا لقب ”صدیق اکبر“ قرار پایا۔ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ اسی طرح جب قرآن میں زقوم کے درخت کا ذکر آیا اور اس کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ اس درخت کی جڑیں جہنم کی تہہ میں ہوں گی الصافات : 64 اور وہاں سے یہ جہنم کی آگ میں پروان چڑھے گا تو یہ بات بھی ان لوگوں کے لیے فتنے کا باعث بن گئی۔ بجائے اس کے کہ وہ لوگ اسے اللہ کی قدرت سمجھ کر تسلیم کرلیتے الٹے اس بات پر تمسخر اور استہزا کرنے لگے کہ آگ کے اندر بھلا درخت کیسے پیدا ہوسکتے ہیں ؟ انہیں کیا معلوم کہ یہ اس عالم کی بات ہے جس کے طبعی قوانین اس دنیا کے طبعی قوانین سے مختلف ہوں گے اور جہنم کی آگ کی نوعیت اور کیفیت بھی ہماری دنیا کی آگ سے مختلف ہوگی۔وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًاقرآن میں یہ سب باتیں انہیں خبردار کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں مگر یہ ان لوگوں کی بد بختی ہے کہ اللہ کی آیات سن کر ڈرنے اور ایمان لانے کی بجائے وہ مزید سرکش ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی سرکشی میں روز بروز مزید اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔
قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيْنًاحضرت آدم اور ابلیس کا یہ قصہ یہاں چوتھی مرتبہ بیان ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ رکوع 4 ‘ سورة الاعراف رکوع 2 اور سورة الحجر رکوع 3 میں اس قصے کا ذکر ہوچکا ہے۔
آیت 64 وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ عربی میں بکری کے ایسے نوزائیدہ بچے کو فزّ کہتے ہیں جو ابھی ٹھیک سے چلنے کے قابل نہ ہو اور کھڑا ہونے کی کوشش میں اس کی ٹانگیں لڑ کھڑاتی ہوں۔ اس مناسبت سے یہ لفظ محاورۃً اس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جس کی ٹانگیں کسی معاملے میں لڑ کھڑا جائیں قدم ڈگمگا جائیں اور ہمت جواب دے دے۔
آیت 65 اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌتم انسانوں کو بہکانے اور پھسلانے کے لیے جو کچھ کرسکتے ہو کرلو ان کے دلوں میں وسوسے ڈالو ان سے جھوٹے سچے وعدے کرو اور انہیں سبز باغ دکھاؤ۔ یہ تمام حربے تو تم استعمال کرسکتے ہو لیکن تمہیں یہ اختیار ہرگز نہیں ہوگا کہ تم میرے کسی بندے کو اس کی مرضی کے خلاف گمراہی کے راستے پر لے جاؤ۔وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًاوہ بندے جو شیطان سے بچنا چاہیں گے اللہ ان کی مدد کرے گا اور جس کسی کا مدد گار اور کارساز اللہ ہو اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی وہی اس کے لیے کافی ہوتا ہے۔