سورۃ البیینہ (98): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Bayyina کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البينة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البیینہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Bayyina
سُورَةُ البَيِّنَةِ
صفحہ 599 (آیات 8 سے 8 تک)

سورۃ البیینہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البیینہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اُن کی جزا اُن کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ کچھ ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Jazaohum AAinda rabbihim jannatu AAadnin tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha abadan radiya Allahu AAanhum waradoo AAanhu thalika liman khashiya rabbahu

جزاءھم ................................ ابدا (8:98) ” ان کی جزا ان کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے “۔ ایسے باغات جن کی نعمتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں مکمل امن ہوگا ۔ اور ان کے فنا ہونے اور رک جانے کا کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ فنا ہونے اور امن و اطمینان کا ختم ہوجانا دنیا کی تمام سہولیات اور طیبات کا مزہ خراب کردیتا ہے اور ان تروتازہ باغوں کے نیچے نہروں کا بہنا ، اس طرف اشارہ ہے کہ ان باغات میں تازگی اور بہار دائمی ہوگی اور یہ زندگی اور جمال سے بھرپور ہوں گے۔

اس دائمی نعمت و رحمت کی تصویر کسی میں سیاق کلام دوقدم اور آگے جاتا ہے۔

ؓ ............................ ربہ (8:98) ” اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے “۔ یہ رضامندی اللہ کی جانب سے ہے او یہ تمام نعمتوں سے برتر اور تمام خوشیوں سے تروتازہ ہے۔ خود ان اہل ایمان کے دلوں میں جو رضامندی ہے وہ رب کی رضامندی ہے۔ اور یہ رضامندی ہے کہ ان کے بارے میں تقدیر الٰہی جو فیصلہ کرتی ہے وہ اس پر راضی ہیں۔ اور اللہ نے ان پر جو انعامات کیے ہیں اس پر بھی وہ راضی ہیں اور اپنے اور اللہ کے درمیان پائے جانے والے تعلق پر بھی راضی ہیں۔ یہ ایسی رضامندی ہے کہ اس سے انسان گہری خوشی اور مسرت و اطمینان محسوس کرتا ہے۔ یہ انداز کہ ” اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں “۔ ایک ایسا انداز ہے جس کی تعبیر کیسی دوسرے الفاظ میں نہیں جاسکتی۔

ذلک لمن خشی ربہ (8:98) ” یہ کچھ ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو “۔ یہ آخری تاکید ہے ، یہ کہ یہ سب کچھ اس پر موقوف ہے کہ کسی کا تعلق باللہ کیسا ہے۔ اور اس تعلق کی نوعیت کیسی ہے۔ یاد رہے کہ کسی دل میں جب خدا کے خوف کا شعور پیدا ہوتا ہے تو یہ شعور انسان کو نیکی پر آمادہ کرتا ہے اور ہر قسم کی کج روی سے انسان کو روکتا ہے۔ یہی شعور ہے جو انسان کی آنکھوں کے سامنے سے تمام پردے ہٹا دیتا ہے۔ اور انسان کا دل اللہ واحدوقہار کے سامنے براہ راست کھڑا ہوتا ہے ، اور اس شعور کی وجہ سے انسان کی عبادت اور اس کے اعمال صالح ہر قسم کی شرک ، ریاکاری سے پاک ہوجاتا ہیں۔ اس لئے کہ جو شخص اپنے رب سے ڈرتا ہے۔ اس کا دل غیر اللہ کے ڈر سے خالی ہوجاتا ہے ، کسی دوسرے کی رو رعایت وہ نہیں کرتا۔ یہ شعور انسان کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ اللہ تمام ایسے اعمال کو رد کردیتا ہے جن میں اس کی رضامندی کے سوا کوئی اور جذبہ بھی ہو ، اللہ غنی بادشاہ ہے ، اس کے لئے تو خالص عمل ہوگا ورنہ وہ اسے رد کردے گا۔

اسی مختصر سی سورت میں یہ چار عظیم حقائق قلم بند کیئے گئے ہیں اور قرآن نے ان حقائق کو اپنے مخصوص اسلوب میں بیان کیا ہے اور یہ اسلوب ان چند سطروں والی سورت میں بہت اچھی طرح نمایاں ہے۔

599