سورہ عنکبوت (29): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ankaboot کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ العنكبوت کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ عنکبوت کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ankaboot
سُورَةُ العَنكَبُوتِ
صفحہ 397 (آیات 7 سے 14 تک)

وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّـَٔاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ ٱلَّذِى كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَٰنَ بِوَٰلِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَٰهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَآ ۚ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِى ٱلصَّٰلِحِينَ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ فَإِذَآ أُوذِىَ فِى ٱللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ ٱلنَّاسِ كَعَذَابِ ٱللَّهِ وَلَئِن جَآءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ ٱللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِى صُدُورِ ٱلْعَٰلَمِينَ وَلَيَعْلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَلَيَعْلَمَنَّ ٱلْمُنَٰفِقِينَ وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّبِعُوا۟ سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَٰيَٰكُمْ وَمَا هُم بِحَٰمِلِينَ مِنْ خَطَٰيَٰهُم مِّن شَىْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَٰذِبُونَ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْـَٔلُنَّ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ عَمَّا كَانُوا۟ يَفْتَرُونَ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ ٱلطُّوفَانُ وَهُمْ ظَٰلِمُونَ
397

سورہ عنکبوت کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ عنکبوت کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے اُن کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انہیں اُن کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena amanoo waAAamiloo alssalihati lanukaffiranna AAanhum sayyiatihim walanajziyannahum ahsana allathee kanoo yaAAmaloona

والذین امنوا اعملوا ۔۔۔۔۔ کانوا یعملون (7)

لہٰذا اللہ کی راہ میں کام کرنے والے مزدور اس بات پر مطمئن ہوجائیں کہ انہیں بہت کچھ ملنے والا ہے ، ان کی تقصیرات بھی معاف ہوں گی ، ان کو اچھی جزاء ملے گی ، لہٰذا ان کو جہاد کی تکلیفوں پر صبر کرنا چاہئے۔ مشکلات اور مصائب کو برداشت کرنا چاہئے کیونکہ ان کی امید روشن ہے اور جزاء پاکیزہ ہے۔ اللہ کے ہاں ان کا انتظار ہو رہا ہے۔ یہ اس قدر عظیم اجر ہے کہ اگر انہیں اس دنیا کی پوری زندگی میں انصاف نہ ملے تو بھی وہ کافی ہے۔

سورت کے آغاز میں ہم نے جن آزمائشوں کا ذکر کیا اس کا ایک رنگ اور پہلو اہل و عیال ، محبوبوں اور دوستوں کا فتنہ ہے۔ ان آزمائشوں میں اللہ ایک مومن کو نہایت ہی معتدل موقف اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawassayna alinsana biwalidayhi husnan wain jahadaka litushrika bee ma laysa laka bihi AAilmun fala tutiAAhuma ilayya marjiAAukum faonabbiokum bima kuntum taAAmaloona

ووصینا الانسان بوالدیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الصلحین (8 – 9)

والدین ، تمام اقرباء میں سے قریب تر اور زیادہ قابل احترام ہوتے ہیں ، ان کے حوالے سے اولاد کو مجسم شفقت بن جانا چاہئے اور ازروئے شریعت ان پر رحم اور ان کا احترام فرض کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ محبت کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جائے ، اور ان کی اچھی طرح کفالت اور دیکھ بھال کی جائے ، لیکن ان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ اللہ کے حقوق مار کر ان کو دئیے جائیں اور ان کی اطاعت اس طرح کی جائے کہ اللہ کی نافرمانی لازم آتی ہو یہ ہے صحیح راستہ۔

ووصینا الانسان ۔۔۔۔۔۔ فلا تطعھما (29: 8) ” ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک

سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھہرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر “۔

کیونکہ مومن کا پہلا تعلق اللہ سے ہے اور یہی تعلق اور رابطہ ناقابل شکست ہے اگر والدین مشرک و کافر ہوں تو ان کے ساتھ صرف حسن سلوک کیا جائے گا۔ احترام و رعایت ہوگی ، اتباع ان کا نہ ہوگا ، دنیا کی اس مختصر زندگی میں یہی ہوگا ، اصل تو آخرت ہے جہاں دونوں اللہ کے سامنے ہوں گے۔

الی مرجعکم فانبئکم بما کنتم تعملون (29: 8) ” میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے ، پھر تم کو بتا دوں گا کہ کہ تم کیا کرتے رہے ہو “۔ قیامت میں پھر تعلق والدین و اولاد کا نہ ہوگا۔ وہاں تو مومن باہم تعلق دار ہوں گے۔ نسب اور رشتے یہیں رہ جائیں گے۔

والذین امنوا ۔۔۔۔۔ فی الصلحین (25: 9) ” جو لوگ ایمان لائے ہوں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہوں گے ان کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے “۔ یوں اللہ والے ایک جماعت ہوں گے ، جیسا کہ حقیقتاً وہ ایک جماعت ہیں۔ اور نسب ، خون اور رشتے وہاں ختم ہوں گے۔ یہ چیزیں یہاں دنیا ہی میں رہ جائیں گی۔ یہ اس دنیا کے عارضی رشتے ہیں اور جو رشتے اس اصلی رشتے سے کٹ گئے یعنی رشتہ ایمان سے تو آخرت میں وہ نابود ہوں گے۔

امام ترمذی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت سعد ابن ابی وقاص ؓ اور ان کی ماں حمنہ بنت ابی سفیان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ اپنی ماں کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کرتے تھے۔ اس نے ان سے کہا ” یہ کیا دین ہے جو تو نے اپنایا ہے ؟ خدا کی قسم میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی نہ پیئوں گی جب تک تم اس دین سے ٹوٹ نہیں جاتے یا یہاں تک کہ میں مرجاؤں۔ اسی طرح لوگ پوری زندگی تمہیں طعنہ دیتے رہیں گے اور لوگ کہیں گے ” اے ماں کے قاتل “ اس نے چوبیس گھنٹے تک یہ بھول ہڑتال کی تو حضرت سعد ان کے پاس آئے اور عرض کی ” اے ماں ، اگر تمہاری سو جانیں ہوں اور تم ایک کے بعد ایک جان دیتی چلی جاؤ تو بھی میں اپنا دین چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ اگر چاہو تو کھا پی لو اگر نہ چاہو تو بھوک ہڑتال جارہی رکھو “۔ جب وہ مایوس ہوگئی کہ یہ تو ماننے والا نہیں ہے تو اس نے کھانا پینا شروع کردیا۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ، لیکن شرک کرنے میں والدین کی اطاعت نہ کرو “۔

یوں اس واقعہ میں نسب کے قریب ترین رشتے پر ایمان غالب آگیا لیکن قرآن نے رشتہ داروں اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک جاری رکھا۔ اہل ایمان کو ہر دور میں ایسی مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔ لہٰذا یہ آیت اور حضرت سعد کی یہ حدیث ہمارے لیے نشانات راہ ہیں۔ یہی امن و نجات کی راہ ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے اُن کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena amanoo waAAamiloo alssalihati lanudkhilannahum fee alssaliheena

اردو ترجمہ

لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ "ہم تو تمہارے ساتھ تھے" کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yaqoolu amanna biAllahi faitha oothiya fee Allahi jaAAala fitnata alnnasi kaAAathabi Allahi walain jaa nasrun min rabbika layaqoolunna inna kunna maAAakum awalaysa Allahu biaAAlama bima fee sudoori alAAalameena

اب ، مشکلات راہ ایمان ہی کے حوالے سے ایک دوسرا کردار ، کہ جب مشکلات آتی ہیں تو چیختا چلاتا ہے ، لیکن جب اللہ کی طرف سے کامیابی اور فتوحات آتی ہیں تو پھر لمبے جوڑے دعوے کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ چند کلمات میں اس کردار کو بھی نمایاں فرماتا ہے ، یوں کہ ایک واضح تصویر سامنے آجاتی ہے۔

ومن الناس من یقول ۔۔۔۔۔۔ ولیعلمن المنفقین (10 – 11)

لوگوں میں ایسے کردار عام ہیں ، ایسے لوگ لفظ ایمان کو ایک معمولی بات سمجھ کر اقرار کرتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ صرف زبان سے کلمہ پڑھنا ہے ۔ اس کے کچھ تقاضے نہیں۔ لیکن جب اللہ کی راہ میں تکالیف آتی ہیں ، اور یہ آزمائش اس کلمے کی وجہ سے آتی ہیں تو

جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ (29: 10) ” اس آزمائش کو اللہ کا عذاب سمجھتا ہے “۔ اور جزع و فزع اور فرمادیں شروع کردیتا ہے۔ اب اس کی دینی قدریں مختلف ہوجاتی ہیں۔ اس کا عقیدہ متزلزل ہوجاتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہی تو جہنم کا عذاب ہے ، جہنم میں ہیں ہم۔ سوچتا ہے کہ یہی تو عذاب الیم ہے۔ لہٰذا ایمان پر جمنے کی کیا ضرورت ہے۔ آخر جس مصیبت میں ہم ہیں جہنم اس سے کیا زیادہ ہوگی۔ یہ ہوتی ہے اس کی سوچ۔ وہ دنیا کی اس معمولی تکلیف کو عذاب الٰہی سمجھتا ہے۔ حالانکہ جہنم میں وہ عذاب ہوگا جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے ، نہ اس کی حدود ہوں گی۔۔ یہ تو تھا اس کا کردار آزمائش میں۔ لیکن اگر خوشیاں ہوں تو۔

ولئن جآء نصر ۔۔۔۔۔ کنا معکم (29: 10) ” اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا کہ ہم تو تمہارے ساتھ تھے “۔ ہم تمہارے ساتھ تھے۔۔ اور مشکلات میں وہ کس قدر ہلکا ، ذلیل اور اس کی سوچ اور اس کے تخمینے کس قدر غلط تھے ۔۔۔ اب تو وہ لمبے چوڑے دعوے کر رہا ہے ، پھولا نہیں سماتا ، اب کہتا ہے۔

انا کنا معکم (29: 10) ” ہم تو تمہارے ساتھ تھے “۔ اور جواب خوب آتا ہے۔

اولیس اللہ باعلم بما فی صدور العلمین (29: 10) ” کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ؟ “ تمہارے دل کی فلم اللہ کے ہاں موجود ہے۔ اللہ کو تو معلوم ہے کہ کون صابر رہا اور کون جزع و فزع کرتا رہا۔ مومن کون ہے اور منافق کون ہے۔ کیا یہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔

ولیعلمن اللہ ۔۔۔۔۔ المنفقین (29: 11) ” اور اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون ہیں “۔ اللہ تو ان کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور یہ ضرور ظاہر ہوتے رہیں گے۔ یہ آزمائشیں تو آتی ہی اس لیے ہیں کہ کھرے اور کھوٹے جدا ہوں۔ اس منافق کردار کے بارے میں یہاں قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کیے وہ قابل غور ہیں۔ ان الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کردار کو غلطی کہاں سے لگی ہے۔

جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ (29: 10) ” تو لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرف سمجھ لیا “۔ ان کی غلطی یہ نہیں ہے کہ ان پر جو سختی آئی اس کے برداشت کرنے میں ان کا صبر تمام ہوگیا ، کیونکہ بعض اوقات ایک سچا مومن بھی برداشت نہیں کرسکتا ، کیونکہ انسانی طاقت کے بہرحال حدود ہوتے ہیں۔ لیکن ایک سچا مومن انسانوں کی طرف سے آنے والی اذیتوں اور اللہ کے عذاب کے درمیان بہرحال تمیز کرتا ہے۔ وہ اس قدر غلطی نہیں کرسکتا کہ اس فانی دنیا کی کوئی چیز اور اللہ کے ہاں دائمی رہنے والے عالم آخرت کی کوئی چیز برابر ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کا ناقابل برداشت عذاب بھی آخرت کے عذاب الٰہی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مومن کے احساس میں اللہ اور اس کے بےمثال کام میں کوئی چیز اس کے برابر نہیں ہوسکتی یہ ہے فرق مومن اور منافق کے درمیان۔

اردو ترجمہ

اور اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WalayaAAlamanna Allahu allatheena amanoo walayaAAlamanna almunafiqeena

اردو ترجمہ

یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اُوپر لے لیں گے حالانکہ اُن کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں، وہ قطعاً جھوٹ کہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena kafaroo lillatheena amanoo ittabiAAoo sabeelana walnahmil khatayakum wama hum bihamileena min khatayahum min shayin innahum lakathiboona

آخر میں لوگوں کو گمراہ اور بدراہ کرنے کی آزمائش کا نمونہ آتا ہے۔ اور بتایا جاتا ہے کہ جزاء و سزا کے بارے میں اہل کفر کا تصور کسی قدر پوچ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو گمراہ کرکے اخروی ذمہ داری خود لیتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں یہ اصل الاصول ہے کہ ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کا انصاف ہے جو اسلام نے واضح طور پر قائم کیا۔ یہ عدل کا زریں اصول ہے۔

وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ کانوا یفترون (12 – 13)

یہ بات ، یہ لوگ اس بددیانہ اصول کے مطابق کہتے تھے جس میں جرائم کے سلسلہ میں ذمہ داری اجتماعی ہوا کرتی تھی۔ کسی جرم کا ذمہ دار اور پورا قبیلہ ہوتا تھا۔ اس غلط رواج کے تحت وہ یہ بھی زعم رکھتے تھے کہ آخرت میں شرک کی ذمہ داری بھی وہ اپنے سر لے سکتے ہیں اور اس طرح وہ ان کو جرم کی سزا سے بچالیں گے۔ یہ دراصل آخرت کی جزاء و سزا کے ساتھ مزاح کر رہے تھے۔

اتبعوا سبیلنا ولنحمل خطیکم (29: 12) ” تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے “۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اٹل جواب آج ہے کہ ہر شخص اللہ کے سامنے ضرور حاضر ہوگا۔ ہر شخص سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اور کوئی شخص کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

وما ھم بحملین من خطیھم من شئ (29: 12) ” حالانکہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں “۔ اور بتایا جاتا ہے کہ یہ جو لاف زنی کرتے ہیں اس میں جھوٹے ہیں۔

انھم لکذبون (29: 12) ” وہ قطعا جھوٹ کہتے ہیں “۔

ہاں یہ لوگ اپنی گمراہی کا بوجھ بھی اٹھائیں گے ، شرک کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اس افترا پردازی کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ جب دوسرے گمراہ ہونے والے بھی معاف نہ ہوں گے۔

ولیحملن اثقالھم ۔۔۔۔۔ کانوا یفترون (29: 13) ” ہاں وہ ضرور اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے ، اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت بوجھ بھی ، اور قیامت کے روز یقیناً ان سے ان افترا پردازویوں کی باز پرس پوگی جو وہ کرتے رہے ہیں “۔ چناچہ اس آزمائش اور فتنے کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا جاتا ہے اور اعلان کردیا جاتا ہے کہ لوگوں کا حساب و کتاب جماعتی صورت میں نہ ہوگا ، فرداً فرداً ہوگا اور ہر شخص اپنے کیے کا ذمہ دار ہوگا۔

کل امری بما کسب رھین ” ہر شخص اس کمائی کا رہن ہوگا جو اس نے کمائی “۔

اردو ترجمہ

ہاں ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ بہت سے دوسرے بوجھ بھی اور قیامت کے روز یقیناً ان سے اِن افترا پردازیوں کی بازپرس ہو گی جو وہ کرتے رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walayahmilunna athqalahum waathqalan maAAa athqalihim walayusalunna yawma alqiyamati AAamma kanoo yaftaroona

اردو ترجمہ

ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس اُن کے درمیان رہا آخر کار اُن لوگوں کو طوفان نے آ گھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad arsalna noohan ila qawmihi falabitha feehim alfa sanatin illa khamseena AAaman faakhathahumu alttoofanu wahum thalimoona

درس نمبر 181 ایک نظر میں

سابقہ راؤنڈ میں یہ بتایا گیا تھا کہ جو لوگ کلمہ ایمان کا اقرار کرتے ہیں ، اللہ کی سنت جاریہ کے مطابق ان کو ضرور آزمایا جائے گا اور مشکلات سے دوچار کیا جائے گا تاکہ سچوں اور جھوٹوں کے درمیان امتیاز ہوجائے۔ آزمائشوں میں اذیت کی آزمائش ، رشتہ داروں کی آزمائش اور سازشوں اور لالچوں کی آزمائش شامل ہے۔

اس سبق میں ان آزمائشوں کا ذکر ہے جو نوح (علیہ السلام) سے ادھر ہر اسلامی دعوت کے قائدین کو پیش آتی رہی چاہے وہ نبی ہیں یا ان کے متبعین اور ساتھی ہیں۔ دعوت و عزیمت کی اس تاریخ میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط (علیہما السلام) کے حالات کو ذرا تفصیل سے لیا گیا ہے اور دوسرے انبیاء کے حالات مجملا بیان ہوئے ہیں۔

ان قصص میں بتایا گیا ہے کہ دعوت اسلامی کی راہ میں قسما قسم کی مشکلات اور رکاوٹیں آتی رہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے طویل جدوجہد کی اور حاصل نہایت معمولی رہا۔ نو سو پچاس سال کی جدوجہد کے نتیجے میں بہت کم لوگ مسلمان ہوئے۔

فاخذھم الطوفان وھم ظلمون (29: 14) ” آخر کار ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے “

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کے مقابلے میں سرکش حکمران نے یہ صلہ دیا کہ وہ تشدد پر اتر آیا ، حالانکہ آپ نے حتی المقدور ان کی ہدایت کے لیے سعی کی۔ معقول دلائل سے بات کی تو اس قوم کا ردعمل بھی یہ تھا :

فما کان جواب ۔۔۔۔۔ حرقوہ (29: 24) ” پھر ابراہیم کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ” قتل کر دو اسے یا چلا ڈالو اس کو “۔ حضرت لوط کے قصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رذیل لوگ کس قدر خود سر ہوگئے ہیں اور کس قدر بےحیا اور طوطا چشم بن گئے تھے۔ نبی کا بھی کوئی لحاظ اور احترام نہیں کرتے تھے اور انہوں نے انسانیت کو حیوانات کے درجے سے بھی گرا دیا تھا اور وہ گندگی اور رذائل میں مبتلا ہوگئے تھے اور وہ اپنے ڈرانے والے ہمدرد کے مقابلے میں یہ جرات کرتے ہیں۔

فما کان جواب ۔۔۔۔۔ من الصدقین (29: 29) ” اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو اللہ کا عذاب ہم پر لے آؤ “۔

حضرت شعیب کے قصے میں بھی اہل مدین کی طرف سے فساد و سرکشی سامنے آتی ہے ، اور وہ سچائی اور حق سے منہ موڑتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں۔

فاخذتھم الرجفۃ ۔۔۔۔۔ جثمین (29: 37) ” آخر کار ایک سخت زلزلے نے انہیں آلیا اور وہ اپنے گھروں میں پڑے کے پڑے رہ گئے “۔

قوم عاد اور قوم ثمود کی طرف غرور ، قوت اور سرکشی کے مظاہرے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح فرعون ، قارون اور ہامان کی طرف یہ اشارہ کیا گیا کہ انہوں نے حق کے مقابلے میں مال و دولت ، حکومت ، سازش اور سرکشی کو سرچشمہ قوت سمجھا ان تمام تاریخی قوتوں پر قرآن یہ تبصرہ کرتا ہے کہ یہ قوتیں ، چاہے وہ جس قدر زور دار کیوں نہ ہوں جب سچائی کے مقابلے میں آتی ہیں تو ان کی حیثیت مکڑی کے جالے کے برابر ہوجاتی ہے۔

کمثل العنکبوت ۔۔۔۔۔ لا کانوا یعلمون (29: 41) ” ان کی مثال مکڑی جیسی ہے ، جو اپنا گھر بناتی ہے ، اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے “۔

درس نمبر 181 تشریح آیات

14 ۔۔۔ تا۔۔۔ 44

ولقد ارسلنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وجعلنٰھا ایۃ للعٰلمین (24 – 25)

حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک دعوت دی۔ نبوت عطا ہونے سے پہلے بھی ان کی کچھ زندگی گزری ہوگی جس کا تعین یہاں نہیں ہے اور طوفان کے بعد بھی وہ زندہ رہے تھے ، وہ عرصہ بھی متعین نہیں ہے۔ اس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر بظاہر موجودہ عمر طبیعی سے بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن یہ عمر قرآن نے بتائی ہے جو اس کائنات میں سب سے سچا ذریعہ علم ہے اور اس کی صداقت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ قرآن کی تصریح ہے۔ اس کی توضیح اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس وقت دست قدرت نے طویل عمریں اس لیے رکھیں کہ زمین آباد ہو اور نسل پھیلے۔ جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو پھر لمبی عمر کی ضرورت نہ رہی۔ کئی زندہ چیزوں میں یہ اصول مروج نظر آتا ہے ، اگر کسی زندہ کی تعداد کم ہو تو عمر زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً شکاری پرندے شاہین وغیرہ اور کچھوے جن کی عمریں اب بھی سینکڑوں سال ہوتی ہیں جبکہ مکھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے زندہ رہتی ہے۔ کسی شاعر نے

کیا خوب کہا ہے۔

بعاث الطیر اکثرھا فراخا وام الصقر مقلاۃ نزور

” کمزور پرندوں کے بچے زیادہ ہوتے ہیں لیکن شاہین کی ماں بہت ہی کم بچے دینے والی ہوتی ہے “۔

یہی وجہ ہے کہ شاہین کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور چھوٹے اور زیادہ بچے دینے والے پرندے کم عمر ہوتے ہیں۔ اللہ کے کام حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز مقدار کے مطابق ہے۔ بہرحال حضرت نوح کے ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے نتیجے میں ایک قلیل مقدار ہی اسلام میں آئی اور اکثریت کو ان کے ظلم کی وجہ سے طوفان بہا کرلے گیا۔ چونکہ انہوں نے اس قدر طویل ہٹ دھرمی اور سرکشی کی اس لئے اللہ نے ان کو تباہ کیا اور عدو قلیل کو نجات دی جو مومن تھے۔ یہ اصحاب سفینہ تھے۔ انہی سے بعد میں انسانی نسل چلی۔ اور طوفان تمام جہاں والوں کے لیے معجزہ بن گیا اور ایک عرصہ تک ظلم ، شرک اور کفر کا انجام قصہ نوح کے حوالے سے یاد ہوتا رہا۔

نوح (علیہ السلام) کے بعد صدیوں کی تاریخ کو لپیٹ کر قرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات کو لیتا ہے۔

397