سورۃ الانفال (8): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anfaal کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنفال کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانفال کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anfaal
سُورَةُ الأَنفَالِ
صفحہ 178 (آیات 9 سے 16 تک)

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ مُرْدِفِينَ وَمَا جَعَلَهُ ٱللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِۦ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا ٱلنَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ إِذْ يُغَشِّيكُمُ ٱلنُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِۦ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ ٱلشَّيْطَٰنِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ ٱلْأَقْدَامَ إِذْ يُوحِى رَبُّكَ إِلَى ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ أَنِّى مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا۟ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ۚ سَأُلْقِى فِى قُلُوبِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ٱلرُّعْبَ فَٱضْرِبُوا۟ فَوْقَ ٱلْأَعْنَاقِ وَٱضْرِبُوا۟ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ ۚ وَمَن يُشَاقِقِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ذَٰلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَٰفِرِينَ عَذَابَ ٱلنَّارِ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ ٱلْأَدْبَارَ وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُۥٓ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَمَأْوَىٰهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
178

سورۃ الانفال کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانفال کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith tastagheethoona rabbakum faistajaba lakum annee mumiddukum bialfin mina almalaikati murdifeena

تفسیر آیات 9 تا 14:

اب سیاق کلام میں اس فیصلہ کن جنگ کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جماعت مسلمہ کا حال کیسا تھا ، اور اللہ نے ان کے لیے کیسی تدابیر اختیار کیں اور اللہ کی تائید و نصرت ان کو محض مشیت الہیہ اور تائید ایزدی کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ قرآن کریم کا بےمثال انداز بیان اس معرکے کے مشاہدات ، تاثرات ، واقعات ، پریشانیوں اور امیدوں کو نہایت ہی دقت سے قلم بند کرتا ہے اس طرح کہ قاری گویا اپنے اپ کو اس معرکے کے اندر محسوس کرے مگر قرآنی تبصرے کے ساتھ ، تاکہ وہ حقائق کو بدر سے وسیع تر دائرے میں سمجھیں۔ جزیرۃ العرب سے بھی ان کی نظر وسیع بلکہ ان کا نقطہ نظر پوری کائنات سے بھی زیادہ وسیع ہو۔ اس بیان میں اب اس معرکے کا پس منظر ملاء اعلی تک وسیع ہوجاتا ہے۔ اب یہ معرکہ یوم بدر سے بھی آگے ، پوری انسانی تاریخ سے بھی آگے بڑھ کر ، پوری دنیاوی زندگی کے دائرے سے بھی وسیع تر دار آخرت تک پہنچ جاتا ہے اور اس پیش منظر میں جماعت مسلمہ کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کیا قدروقیمت ہے ، اس کے اعمال کس قدر اہم ہیں اور اس کی اقامت دین کی جدو جہد اور حرکت کس قدر مقدس ہے۔

یہ ایک معرکہ ہے جو اللہ کے امر اور اس کی مشیت کے مطابق چل رہا ہے۔ اللہ کا نظام قضا و قدر اور اس کی تدبیر خود کر رہا ہے۔ اللہ کے خاص دستے اس میں شریک ہیں۔ اس معرکے میں حرکت الابزن کے مناظر اور اس کی خطرناکیاں اور اس کی کامیابیاں قرآنی عبارات میں صاف نظر آرہی ہیں۔ یہ ایک زندہ منظر ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ شاید یہ نظر ابھی آنکھوں کے سامنے ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس معرکے میں اہل ایمان کی فریاد کی تھی ؟ امام احمد حضرت عمر ابن الخطاب سے روایت کرتے ہیں ، جب بدر کا واقعہ درپیش ہوا ، تو نبی ﷺ نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا کہ وہ تین سو سے کچھ اوپر ہیں اور جب کفار کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک ہزار سے کچھ اوپر ہیں تو حضور ﷺ نے قبلہ کی طرف چہرہ مبارک پھیرا ، آپ چادر اور تہہ بند اوڑھے ہوئے تھے اور کہا : اے اللہ آپ نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کردیجیے۔ اے اللہ اگر آج آپ نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کردیا تو پھر دنیا میں کبھی تیری بندگی نہ ہوگی " کہتے ہیں آپ اللہ کے سامنے اسی طرح فریاد کرتے رہے اور پکارتے رہے ، یہاں تک کہ آپ کے کاندھوں سے چادر گرگئی۔ حضرت ابوبکر آئے ، انہوں نے چادر کو پکڑا اور اسے اپنی جگہ پر رکھ دیا اور پیچھے سے اسے پکڑے رکھا اور اس کے بعد آپ نے کہا " اے اللہ کے نبی ، بس اللہ کے سامنے آپ کی یہ فریاد کافی ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اس پر اللہ نے یہ آیات نازل کیں۔

"إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ (9): اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں " یوم بدر میں فرشتوں کی تعداد اور ان کے طریقہ جنگ کے بارے میں متعدد اور مفصل روایات وارد ہیں۔ اور ان میں بتایا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو کیا کہتے تھے اور کس طرح ان کو جرات دلاتے تھے اور کفار کو کیا کہتے تھے اور کس طرح انہیں شرمندہ کرتے تھے۔ لیکن ظلال القرآن میں ہمارا جو طریقہ ہے ، اس کے مطابق ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے بارے میں قرآن و سنت کی نصوص واضح ہیں۔ یہاں قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔ مثلاً :

"إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ (9): اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں "۔ یہ تو تھی ان کی تعداد۔ اور ان کا طریقہ جنگ یہ تھا :

"إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الأعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ (12): اور وہ وقت جب کہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو ، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں ، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ "

یہ تھا ان کا عملی کام۔ اس سے مزید تفصیلات کی سرے سے ضرورت نہیں ہے کیونکہ آیت اپنے مفہوم میں واضح ہے۔ ہمیں اس قدر یقین کرلینا چاہیے کہ اس معرکے میں اللہ نے مسلمانوں کو اپنے حال پر نہ چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ تعداد و اسباب کے اعتبار سے بہت کم تھے اور جس طرح قرآن کریم کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ، اسی انداز سے فرشتوں نے اس جنگ میں شرکت کی۔

امام بخاری باب ثہود الملائکہ بدر میں کہتے ہیں : ابن اسحاق سے ، جریر سے ، یحییٰ ابن سعید سے ، معاز ابن رفاعہ ابن رافع الرزقی سے ، اس کے باپ سے (اور یہ اہل بدر میں سے تھے) کہتے ہیں کہ جبرئیل نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا تم اہل بدر کے بارے میں کیا خیال کرتے ہو ، آپ نے فرمایا " ہم ان کو افضل المسلمین سمجھتے ہیں۔ تو جبرئیل نے کہا اسی طرح ہم فرشتوں میں سے جو بدری تھے ، ان کو افضل سمجھتے ہیں۔ (بخاری)

اردو ترجمہ

یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama jaAAalahu Allahu illa bushra walitatmainna bihi quloobukum wama alnnasru illa min AAindi Allahi inna Allaha AAazeezun hakeemun

مسلمان اللہ کے دربار میں زاری کر رہے تھے تو اللہ نے ان کو جواب دیا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کی امداد تمہارے لیے بھیج رہا ہوں جو لگاتار نازل ہوتے رہیں گے۔ اس اعلان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بہت عظیم تھا ، اور اللہ کے نزدیک اقامت دین کی بہت اہمیت تھی ، لیکن اللہ تعالیٰ یہاں اس بات کی وضاحت بار بار فرماتے ہیں کہ دنیا میں اسباب کی اس قدر اہمیت نہیں کہ ان سے تخلف ممکن نہ ہو۔ اصل اختیار اللہ کی مشیت کا ہوتا ہے۔ لہذا اسباب کے معاملے میں مومن کو اپنا ذہن صاف رکھنا چاہیے۔ اللہ کی جانب سے مدد کی قبولیت اور پھر اس کی اطلاع محض ایک خوشخبری تھی جس کے ذریعے مومنین کو اطمینان دلانا مقصود تھا۔ رہی نصرت تو وہ اللہ کی جانب سے تھی۔

یہ ہے وہ حقیقت جو یہاں قرآن مومنین کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ کلی تکیہ اسباب پر نہ کریں۔

مسلمانوں کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنی پوری قوت کو اس معرکے میں جھونک دیں اور کچھ بھی باقی نہ رکھیں۔ ابتدائی طور پر بعض لوگوں کے اندر جو تزلزل پیدا ہوگیا تھا اس پر قابو پا لیں۔ کیونکہ اس وقت وہ واقعی اور حقیقی خطرے سے دوچار تھے۔ وہ اللہ کا حکم بجا لاتے ہوئے اگے بڑھیں اور اللہ کی نصرت پر یقین رکھیں۔ بس یہی ان کے لیے کافی تھا تاکہ وہ اپنے حصے کا کردار اچھی طرح ادا کرلی۔ آگے پھر قدرت الہیہ کا کام آتا ہے اور قدرت الہی اپنے معاملات کی تدبیر خود کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جو اقدامات ہوئے اور اطلاعات دی گئیں وہ محض مسلمانوں کے اطمینان کے لیے ہیں۔ ان کے قدموں کو ثابت کرنے کے لیے تھیں کیونکہ وہ ایک حقیقی خطرے سے دوچار تھے۔ جماعت مسلمہ کے لیے یہ بات کافی تھی کہ اسے یہ اطمینان ہو کہ اللہ کے لشکر اس کے ساتھ ہیں اور یہ کہ نصرت ان کے لیے مقدر ہے۔ کیونک نصر اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور اللہ ان کے ساتھ ہے ، وہ عزیز ہے اور وہی غالب ہے ، وہی حکیم ہے اور وہ ہر بات کو اپنے حقیقی مقام پر رکھتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جما دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith yughashsheekumu alnnuAAasa amanatan minhu wayunazzilu AAalaykum mina alssamai maan liyutahhirakum bihi wayuthhiba AAankum rijza alshshaytani waliyarbita AAala quloobikum wayuthabbita bihi alaqdama

یہ غنودگی کا واقعہ بھی نہایت ہی عجیب اور حیرت انگیز ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حالت تھی اور جنگ سے قبل مسلمانوں پر طاری ہوگئی تھی۔ یہ صرف امر الہی اور اللہ کی خاص تدبیر اور تقدیر کا کارنامہ تھا۔ جب لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو مسلمانوں پر قدرے خوف طاری ہوگیا کیونکہ ان کی توقع نہ تھی کہ اس قدر عظیم لشکر امنڈ آئے گا۔ اور اس وجہ سے ان کی تیاری بھی نہ تھی ، اچانک انہیں غنودگی نے آ لیا۔

جب یہ غنودگی دور ہوئی تو وہ بالکل فریش اور تروتازہ تھے۔ ان کے دل اطمینان سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ حالات ان پر احد میں طاری ہوگئی تھی۔ لوگوں کے اندر بےچینی آگئی ، اور اللہ نے ان پر غنودگی طاری کردی۔ اور انہیں اطمینان ہوگیا ۔ میں ان آیات کو پڑھ کر گذر جاتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دور ماضی کا ایک واقعہ ہے۔ میں اس واقعہ کے بارے میں قران کریم کے اس قصے کو پڑھتا اور یہ سمجھتا کہ اس کا راز اللہ ہی جانتا ہے جس نے ہمیں اس کی اطلاع دی ہے۔ لیکن جب مجھ پر مشکلات آئیں اور بعض لمحات نہایت ہی تنگی اور پریشانی کے بھی گذرے تو مجھے ان آایت کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ ایک بار میں نامعلوم خوف سے دوچار ہوگیا ، غروب شمس کا وقت تھا ، اچانک چند منٹوں کے لیے مجھ پر غنودگی آجاتی ہے اور جب یہ حالت دور ہوتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو اس غنودگی سے پہلے تھا۔ میرا نفس نہایت ہی پرسکون تھا۔ دل مطمئن تھا اور میں گہرے اطمینان میں غرق تھا۔ چند لمحات میں یہ عمل کیسے طے ہوگیا۔ یہ اچانک کس طرح انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ میں نہیں جانتا۔ لیکن یہ بات ضرور ہوگئی کہ قصہ بدر و احد میری سمجھ میں آگیا۔ اس واقعہ کے بعد میں اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اس قصے کو سمجھ لیا ، محض عقلی طور پر نہیں یہ اب میرے وجود میں ایک زندہ حقیقت تھی۔ محض تصور اور خیال نہ تھا۔ مجھے صاف نظر آیا کہ اس میں دست قدر کی کارفرمائی ہے اور نہایت ہی خفی طور پر مجھے اطمینان عطا ہوگیا۔

بدر کے دن جماعت مسلمہ کے لیے یہ غنودگی اللہ کی غیبی امداد تھی۔ اذ یغشکیم النعاس امنۃ ۔ اس وقت کو یاد کرو کہ تمہار رب اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بےخوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا۔ اس آیت میں یغشیکم النعاس اور امنۃ تینوں لفظ اس فضا پر ایک لطیف اور شفاف پرتو ڈالتے ہیں اور اس منظر کی عام فضا کی نقشہ کشی کرتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے شب و روز کیا تھے اور یہ کہ مسلمانوں کے عام حالات کے مقابلے میں اور ان کی اس نفسیاتی کیفیت میں فرق کیا تھا۔

اب بارش کا قصہ ملاحظہ فرمائیں۔

وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأقْدَامَ (11): اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے۔

یہ واقعہ معرکہ سے قدرے پہلے پیش ٓیا۔ اور یہ بھی امت مسلمہ کے لیے ایک قسم کی خاص امداد تھی۔

علی ابن طلحہ نے حجرت ابن عباس سے روایت کی ہے ، کہ یوم بدر میں حضور ﷺ نے جس جگہ پر قیام کیا اس کی پوزیشن یہ تھی کہ مشرکین اور پانی کے درمیان ایک ریت کا ٹیلہ تھا جو ایک پتھریلی جگہ تھی۔ اس دن مسلمان بہت ہی تھکے ہوئے تھے۔ ایسے حالات میں شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ اندازی شروع کردی کہ تم دعویٰ تو یہ کرتے ہو کہ تم اللہ کے دوست ہو اور تمہارے اندر اللہ کے رسول موجود ہیں۔ حالانکہ مشرکین پانی پر قبضہ کرچکے ہیں اور تمہاری حالت یہ ہے کہ تم حالت جنابت میں نماز پڑھتے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے شدید بارش برسائی۔ مسلمانوں نے پانی بھی پیا اور طہارت بھی حاصل کی اور اللہ نے شیطانی نجاست سے ان کو پاک کردیا۔ جب بارش ہوئی تو ریت بھی بیٹھ گئی اور لوگ اور جانور اس کے اوپر آسانی سے چلنے لگے۔ اس طرح وہ آگے بڑھے۔ ـاللہ نے نبی کو ایک ہزار فرشتوں کی امداد حضرت جبریل کی کمان میں پانچ صد فرشتے تھے جو ہر قسم کے سامان سے لیس تھے۔ اور میکائیل کی کمان میں بھی پانچ صد فرشتے تھے۔

یہ حالت اس وقت پیش آئی جب کہ حضور ﷺ نے حباب ابن منذر کے مشور پر کیمپ نہیں بدلا تھا۔ انہوں نے شمورہ دیا کہ مناسب یہ ہے کہ ہم بدر کے پانیوں کے قریب فروکش ہوں اور پانی کا حوض بنا کر مخالف کیمپ کا پانی بند کردیں۔

” معروف یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بدر کی طرف چلے تو آپ نے ابتدائی اور پہلے پانی پر قیام کیا لیا۔ اس پر حباب ابن منذر آگے بڑھے کہ جس مقام پر قیام کا حکم دیا گیا ہے آیا یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم اس میں رد و بدل کرسکتے ہیں اور یہ مقام بطور جنگی چال اور تدبیر ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ مقام محض جنگی سوچ کی بنا پر تجویز کیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا پھر یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے فوجی کیمپ کے لیے۔ مناسب یہ ہے کہ آپ ہمیں آخری پانی پر لے چلیں جو مشرکین کے قریب ہے اور اس آخری پانی سے پیچھے جس قدر پانی ہیں ، ان کو ہم دشمن سے روک لیں گے۔ ہم خود پئیں گے اور مویشیوں کو پلائیں گے۔ یوں ہمارے پاس پانی ہوگا اور ان کے پاس پانی نہ ہوگا۔ اس پر حضور نے لشکر کو ایسا ہی کا حکم دیا اور اس مشورے پر عمل کیا۔

حباب ابن المنذر کے مشورے سے قبل کی رات میں مسلمانوں کی یہ حالت تھی جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بطور احسان اس جماعت سے کر رہے ہیں جو بدر میں شریک ہوئی۔ یہ جو امداد اللہ نے کی یہ دوسری امداد تھی۔ یہ روحانی بھی تھی اور مادی بھی تھی اس لیے کہ صحراؤں میں پانی پر زندگی موقوف ہوتی ہے۔ پانی فتح کا سامان ہوتا ہے اور صحراؤں میں جس لشکر کے پاس پانی نہ ہو وہ ذہنی طور پر شکست کھا جاتا ہے۔ اور روحانی اس طرح کہ مسلمان شیطانی وسوسوں سے بھی نکل آئے۔ وہ حالت جنابت میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اس وقت تک ان کو تیمم کی اجازت بھی نہ تھی۔ یہ اجازت بہت بعد میں غزوہ بنی المصطلق میں دی گئی یعنی 5 ہجری میں۔ ایسے حالات میں شیطان نے نفسیاتی وسوسے ڈالے اور لوگوں کے اندر نفسیاتی اور روحانی بےچینی پیدا کردی تھی تاکہ جب یہ لوگ اس معرکے میں داخل ہوں تو روحانی اعتبار سے پریشان ہوں اور مادی شکست سے پہلے ان کو اندرونی طور پر شکست ہوچکی ہو اور وہ اندر سے ٹوت چکے ہوں۔ ایسے حالات میں اللہ کی یہ امداد خاص آئی ہے۔

” وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأقْدَامَ (11): اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے “

یوں مادی امداد کے ساتھ ساتھ روحانی امداد بھی پوری پوری ہوجاتی ہے۔ پانی کی وجہ سے دلوں کو اطمینان ہوگیا اور روح کی پاکیزگی کی وجہ سے وہ تروتازہ ہوگئے۔ بارش کی وجہ سے ریت بیٹھ گئی اور قدم بھی مضبوط ہوگئے۔

یہ تدابیر اس کے علاوہ تھیں کہ اللہ نے فرشتوں کو خصوصی ہدایت دے دیں کہ تم اہل ایمان کے قدموں کو مضبوط کرو اور کفار کے دلوں میں ان کا رعب ڈالو ، اور فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ تم عملاً جنگ میں شرکت کرو۔

اردو ترجمہ

اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ “میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رُعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith yoohee rabbuka ila almalaikati annee maAAakum fathabbitoo allatheena amanoo saolqee fee quloobi allatheena kafaroo alrruAAba faidriboo fawqa alaAAnaqi waidriboo minhum kulla bananin

یہ ایک عظیم معاملہ ہے ، اس معرکے میں فوج ملائکہ کے ساتھ خود اللہ بھی موجود ہیں اور ملائکہ اہل ایمان کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ یہ اس قدر عظیم معاملہ ہے جو کسی صورت میں بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ سوچئے ! ملائکہ کس طرح شریک ہوئے ؟ انہوں نے کتنے افراد کو مارا ؟ کس طرح مارا ؟ یہ ایک عظیم معاملہ ہے اور بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جو جماعت اقامت دین کا کام کرتی ہے اس میں اس کے ساتھ ملائکہ شریک ہوتے ہیں اور ملائکہ اس میں حصہ لیتے ہیں۔

ہمارا ایمان ہے کہ مخلوقات رب العالمین میں ایک مخلوق ایسی ہے جسے ملائکہ کہا جاتا ہے کہ ان کی طبیعت اور ماہیت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں ہمیں صرف اس قدر علم دیا گیا ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ لہذا ہمیں اس کیفیت کا بھی علم نہیں جس کے مطابق اس مخلوق نے مومنین کی امداد کی۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ رب تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا کہ وہ مومنین کے لیے ثابت قدمی کا باعث ہوں اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں اور انہوں نے یہ کام کیا ، کیونکہ یہ وہ مخلوق ہے جو امر الہی کی پابند ہے۔ لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے یہ کام کیسے کیا ؟ اللہ نے یہ حکم بھی دیا کہ کفار کی گردنوں پر وار کرو اور ان کے ایک ایک جوڑ پر وار کرو تاکہ یہ کام کے ہی نہ رہیں اور انہوں نے ایسا کیا۔ لیکن کیسے کیا ؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ہمیں ان کے بارے میں اسی قدر علم ہے جو اللہ نے بتایا۔ پھر اللہ کا حکم یہ تھا کہ کفار کے دلوں کے اندر رعب ڈالا جائے اور یہ ڈال دیا گیا اور ایسا کردیا گیا۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن ہمیں اس کی کیفیات کا بھی علم نہیں ہے کیونکہ یہ کفار اللہ کی مخلوق ہیں اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس پر کس طرح اثر ہوگا۔ وہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور وہ شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔

ان افعال کی کیفیات سے بحث کرنا ، دین اسلام کے مزاج کے خلاف ہے اور اس دین کی سنجیدگی کے ساتھ یہ طرز عمل لگا نہیں کھاتا۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ یہ ایک عملی دین ہے اور یہ عقیدہ اور نظریات و تصورات کو بھی عملی حد تک رکھتا ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں مسلمانوں کے علم الکلام کے اندر یہ مباحث زیادہ اہم ہوگئے اور یہ اس وقت ہوا کہ جب لوگ اسلام کے مثبت اور عملی کام سے فارغ ہوگئے اور علمی اور ثقافتی رنگ ان پر غالب ہوگیا۔ لیکن اصل بات تو یہ تھی کہ مسلمان میدان معرکہ ہوتے ، فرشتے ان کے ساتھ بزن کے عالم میں ہوتے اور فرشتوں اور مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتے تو یہ عملی صورت حال مسلمانوں کے لیے ، اس ثقافتی جدل وجدال سے زیادہ نفع بخش ہوتی۔

اردو ترجمہ

یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahum shaqqoo Allaha warasoolahu waman yushaqiqi Allaha warasoolahu fainna Allaha shadeedu alAAiqabi

اس تقریر کے آخر میں اور اس عظیم اور ہولناک حقیقت کے انکشاف کے آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس معرکے کا پس منظر کیا تھا اور کن حقائق کی وجہ سے کسی کو نصرت ملی اور کسی کے حصے میں ہزیمت آئی۔ وہ عظیم پس منظر یہ تھا :۔

” ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۚ وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ : یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے “

یہ کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ اچانک پیش آگیا اور نہ ہی یہ اتفاقی حادثہ تھا جو پیش آگیا اور چلا گیا۔ اللہ نے جماعت مسلمہ کی نصرت کی اور اسے اس کے دشمنوں پر مسلط کردیا اور اس کے دشمنوں کے دلوں کے اندر رعب بٹھا دیا۔ مسلح فرشتے ان کی امداد کے لیے پہنچ گئے۔ یہ اس لیے تھا کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے لیے وہ محاذ چن لیا جو اللہ کا محاذ نہ تھا اور وہ اللہ اور رسول کی مخالف صفوں میں چلے گئے۔ انہوں نے خدا اور رسول سے محاذ آرائی شروع کردی اور وہ اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے رکاوٹ بن گئے تھے۔

” وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ : اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے “ یعنی ایسے لوگوں پر وہ سخت عذاب نازل کرتا ہے۔ اللہ اس قدر طاقتور ہے کہ وہ ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے اور وہ اس قدر ضعیف ہیں جو اس عذاب کو برداشت کرنے کی قدرت اپنے اندر نہیں رکھتے۔

یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے ، اور اس کا اصول ہے۔ یہ کوئی اچانک یا کوئی حادثہ یا اتفاق نہیں ہے۔ یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ اس کرہ ارض پر جب بھی کوئی جماعت اس لیے اٹھے کہ وہ یہاں اللہ کے اقتدار اعلی کو قائم کرے گی اور یہاں صرف اسلامی نظام حیات قائم ہوگا اور اس جماعت کے خلاف اللہ کا کوئی دشمن اٹھ کھرا ہوا اور اس نے اس جماعت کے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی اور ایسے لوگ قوت اور رعب و داب کے مالک بھی ہوتے تو اللہ کی مدد اس جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے بشرطیکہ یہ جماعت ثابت قدمی سے اپنے مقصد کی طرف گامزن ہو اور رب تعالیٰ کی راہ میں مطمئن ہو۔ اس پر توکل کرنے والی ہو اور اپنی راہ پر اس کا سفر جاری ہو۔

اردو ترجمہ

یہ ہے تم لوگوں کی سزا، اب اس کا مزا چکھو، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalikum fathooqoohu waanna lilkafireena AAathaba alnnari

اس منطر کے آخر میں ان لوگوں کو مخاطب کیا جاتا ہے جنہوں نے اللہ اور رسول اللہ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی ہے کہ یہ رعب اور پھر یہ ہزیمت جو تمہیں اس دنیا میں اٹھانی پڑی اس پر یہ بات ختم نہیں ہوگئی ہے کیونکہ یہ دین ، اس کا قیام اور اس کی جماعت صرف اس مختصر سے زمانہ دنیا پر ختم ہوجانے والا معاملہ ہی نہٰں ہے۔ یہ معاملہ اس دنیا اور اس کائنات سے بہت آگے تک جاتا ہے۔ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی پر بھی اس کے اثرات ہیں اور وہ یہ ہیں۔ ” ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابَ النَّارِ : یہ ہے تم لوگوں کی سزا ، اب اس کا مزہ چکھو ، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے “۔ یہ ہوگا اصلی انجام اور یہ عذاب اس عذاب سے بہت ہی مختلف قسم کا اور زیادہ ہوگا جو تمہیں مرعوب کرکے اور تمہاری گردنوں پر اور جوڑوں پر ضربات لگا کر تمہیں دیا گیا۔

۔۔۔۔

جنگ بدر کے واقعات اور حالات کی منظر کشی کے بعد اور یہ دکھانے کے بعد کہ اس کے پس منطر میں دست قدرت کام کر رہا تھا اور اللہ کی معاونت اور امداد اس میں شامل تھی اور یہ جان لینے کے بعد کہ مسلمان کو اس پوری تگ و دو میں دست قدرت کے لیے ایک پردہ تھے ، کیونکہ اللہ ہی نے رسول کو گھر سے نکالا۔ یہ محض نمائش قوت کے لیے نہ نکلے تھے اور نہ ہی مظالم کے لیے نکلے تھے ، یہ اللہ ہی نے فیصلہ کیا کہ دو گروہوں میں سے کون سا گروہ مسلمانوں کے ہاتھ لگے اور وہی ہے جس نے مجرموں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی تاکہ حق ، حق ہوجائے اور باطل ، باطل ہوجائے۔ اگرچہ مجرم اس بات کو پسند نہ کرتے تھے اور یہ اللہ ہی تھا جس نے ان کی مدد کے لیے وہ فرشتے بھیجے جو لگاتار آ رہے تھے۔ پھر وہ اللہ ہی تھا جس نے ان پر غنودگی طاری کردی تھی اور آسمانوں سے ان پر پانی اتارا تاکہ ان کو پاک کردے اور ان کو شیطانی نجاست سے پاک کردے ان کے دلوں کو مطمئن کردے اور قدم مضبوط کردے۔ اور یہ اللہ ہی تھا کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے قدم مضبوط کردیں ، اور کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں اور وہ اللہ ہی تھا جس نے اس معرکے میں فرشتوں کو شریک کیا۔ ان کو حکم دیا کہ ان کی گردنوں پر ضربات لگاؤ اور ان کے جوڑوں میں چوٹیں لگاؤ اور پھر اللہ ہی تھا جس نے ان کو اموال غنیمت عطا کیے حالانکہ جب وہ گھر سے نکلے تھے تو ان کے پاس نہ مال تھا اور نہ سازوسامان تھا۔

اردو ترجمہ

اے ایمان لانے والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha laqeetumu allatheena kafaroo zahfan fala tuwalloohumu aladbara

اب جبکہ سابقہ واقعات بیان ہوگئے تو اس حقیقت کو ان کے ذہن نشین کرنے کے لیے دوبارہ بیان کیا جاتا ہے تاکہ یہ ان کی نظروں کے سامنے رہے کہ فیصلہ کن جنگ صرف سازوسامان اور زاد و عتاد پر موقوف نہیں ، بلکہ اس میں نصرت الٰہی اور اللہ کی تدبیر اور مشیت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اس راہ میں اصل سازوسامان توکل علی اللہ ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف التجا اور اللہ کے ہاں فریاد وزاری اور اللہ کی تدبیر اور تقدیر اس میں فیصلہ کن ہوتی ہے۔

یہ منظر ابھی تک ان لوگوں کے ذہنوں میں اچھی طرح بیٹھا ہوا ہے۔ ایسے حالات اور ایسا ماحول اس بات کے لیے نہایت ہی مناسب ہوتا ہے اور اس میں بات مانی جاتی ہے۔ چناچہ ایسے ماحول میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ ان کی صفت ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ جب کفار کے بالمقابل کھڑے ہوں تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور فرار اور ہزیمت کو ہرگز قبول نہ کریں۔ خصوصاً جبکہ نصرت اور ہزیمت اللہ کے اختیار میں ہوتی ہے اور اس پر تمہارا ایمان ہے۔ نصرت اور ہزیمت کا فیصلہ صرف اسباب ظاہریہ پر ہی نہیں ہوتا ، خصوصاً جبکہ کسی معرکے کی تدبیر اور کمان خود اللہ نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئی ہو۔ جیسا کہ تمام امور کی تدبیر وہی کرتا ہے اور وہی ہے جو مومنین کے ہاتھوں کفار کو قتل کراتا ہے۔ وہی ہے جو تیرے کو نشانے پر بٹھاتا ہے۔ اہل ایمان تو دست قدرت کے لیے ایک پردہ اور بہانہ ہیں اور اللہ اس بہانہ سے انہیں جہاد کا ثواب عطا کرتا ہے اور کافروں کو مسلمانوں کی نسبت سے مرعوب کرتا ہے۔ ان کی تدبیر کی چولیں ڈھیلی کرتا ہے اور دنیا و آخرت میں انہیں عذاب سے دوچار کرتا ہے اس لیے کہ وہ درحقیقت اللہ اور رسول سے محاذ آرائی کیے ہوئے ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔

” يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دو چار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو “

قرآن نے اس معاملے میں جو سخت انداز گفتگو اختیار کیا ہے اور سخت سزا تجویز کی ہے اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ جو شکست کھاتے ہوئے بھاگے وہ غضب الہی کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا۔ یہ ڈراوا ہے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دو چار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الا یہ کہ نگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت بری جائے باز گشت ہے۔

اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم حالت ” زحف “ میں ہو یعنی جنگ میں دوبدو مقابلہ آن پڑے تو اس وقت فرار اختیار نہ کرو الا یہ کہ یہ فرار کسی جنگی چال کی صورت میں ہو ، کہ تم بہترین مواقع کے لیے فرار اختیار کر رہے ہو یا کوئی اور بہترین منصوبے کی خاطر فرار کا حکم دیا گیا ہو۔ یا تم کسی دوسری جنگی کمپنی سے ملنے کے لیے فرار اختیار کر رہے ہو۔ یا تم جنگی ہیڈ کو ارٹرز کی طرف بھاگ رہے ہو تاکہ دوبارہ حملہ کرسکو۔ ان حالات کے سوا کسی اور صورت میں اگر تم دشمن کو پیٹھ دکھاؤ گے تو تم عذاب کے مستحق بن جاؤگے تم پر اللہ کا غضب ہوگا اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔

بعض اقوال ایسے منقول ہوئے ہیں کہ یہ حکم صرف اہل بدر کے لیے تھا یا ایسے غزوات کے لیے تھا کہ جن میں حضور اکرم ﷺ بذات خود شریک ہوا کرتے تھے لیکن جمہور علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت اور حکم عام ہے اور یہ کہ دو بدو مقابلے سے بھاگنا ان سات گناہ ہائے کبیرہ میں سے ایک ہے جن کے بارے میں حضور نے لفظ ” مولفات “ استعمال کیا ہے۔ بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا سات ان گناہوں سے اجتناب کرو جو مولفات ہیں۔ کہا گیا حضور وہ کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا الشرک باللہ ، سحر ، ایسے شخص کا قتل جس کا قتل حرام ہو ، اکل ربا ، اکل مال یتیم ، دو بدو جنگ میں پیٹھ پھیرنا اور محض بیخبر مومن عورتوں پر الزام لگانا۔

امام ابوبکر الجصاص نے احکام القرآن میں اس کے بارے میں تفصیلات دی ہیں یہاں ان پر نظر ڈالنا مفید رہے گا۔ ” اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ “ ابو نضرہ نے اوب سعید سے یہ نقل کیا ہے کہ یہ یوم بدر کے معاملے میں تھا کیونکہ اس دن وہ بھاگ کر کس سے ملتے ؟ صرف یہ صورت تھی کہ وہ مشرکین سے ملتے۔ کیونکہ مسلمان تو ان کے سوا کوئی تھا نہیں۔ اور حجور نے سب لوگوں کو حکم نہ دیا تھا کہ وہ نکلیں ، اور نہ ان لوگوں کی رائے تھی کہ جنگ ہوجائے۔ سب کا خیال یہ تھا کہ قافلے کے ساتھ ہی مڈ بھیڑ ہوگی۔ حضور ایک خفیف سی قوت لے کر نکلے۔ لہذا ابو نضرہ کا کہنا کہ اس دن ان لوگوں کے سوا اور کوئی مسلمان نہ تھا اور اگر وہ بھاگتے تو صرف کفار کی طرف بھاگ جاتے ، غلط ہے اور دلیل وہی ہے جو ہم نے بیان کی۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جنگ بدر کے دن ان کے لیے بھاگنا اور پیٹھ پھیرنا اس لیے جائز نہ تھا کہ اس دن حضور ﷺ ان میں موجود تھے اور حضور کو چھوڑ کر بھاگنا جائز نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” ماکان لاھل المدینۃ ومن حولہم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرغبو بانفسہم عن نفسہ : اہل مدینہ اور اس کے ماحول میں رہنے والے اعراب مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو چھور کر بیٹھے رہتے اور اس کی طرف سے بےپرواہ ہو کر اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے “۔ اس لیے ان کے لیے یہ جائز نہ تھا کہ وہ اپنے نبی کو ناکام بناتے اور اسے چھور کر دشمن کے حوالے کردیتے۔ اگرچہ اللہ اس کا کفیل تھا اور ان کا مددگار تھا۔ اس نے ذمہ داری قبول کی تھی کہ اسے کافروں سے بچائے گا۔ جیسا کہ کہا گیا واللہ یعصمک من الناس۔ اللہ ٓپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ لہذا ان پر حضور کی مدد کرنا فرض تھا۔ چاہے دشمن زیادہ ہو یا قلیل ہو۔ اور ان لوگوں کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس دن حجور ہی ایک دستہ تھے اور جنگ میں پیٹھے پھیرنا اس شرط پر جائز تھا کہ وہ مجاہدین کی کسی دوسری کمپنی کی طرف پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور اس دن واحد گروہ تھے ، کوئی اور گروہ بدریوں کے علاوہ کسی جگہ تعینات نہ تھا۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں ایک لشکر میں تھا۔ لوگوں نے یکبارگی حملہ کیا اور ہم مدینہ کی طرف لوٹ آئے۔ ہم نے کہا کہ ہم تو بھاگنے والوں میں سے ہیں۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا میں تمہارے لیے فئہ ہوں۔ اس لیے جو شخص نبی ﷺ سے دور ہو اور وہ واپس آجائے تو اس کا نبی ﷺ کے پاس واپس ہونا جائز ہے۔ اور اگر حضور جنگ میں موجود ہوں تو پھر کوئی ایسا گروہ موجود نہ ہوگا جس کے ساتھ ملنے کے لیے فوجیوں کے لیے بھاگنا جائز ہو۔ وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ۔ اور جو شخص اس دن پیٹھ کفار کی طرف پھیرے گا۔ اس آیت کے بارے میں ابن الحسن کہتے ہیں کہ اہل بدر پر بہت ہی سختی سے احکامات نافذ کرائے گئے اور یہ آیت ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلہم الشیطن ببعض ما کسبوا۔ وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے جس دن دو فوجوں کا آمنا سامنا ہوا ، ان کو شیطان نے ان کی بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے پھسلا دیا۔ اس لیے کہ یہ لوگ حضور سے بھاگ گئے تھے۔ نیز حنین کی جنگ میں بھی یہ لوگ نبی ﷺ کو چھور کر بھاگ گئے تھے۔ اس لیے اللہ نے اس فعل پر ان کو سزا دی۔

” ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم و لیتم مدبرین۔ اور حنین کے دن کو یاد کرو جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں ڈال دیا تھا لیکن اس کثرت نے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ تو یہ تھا حکم اس حالت کے لیے جب حضور ان کے ساتھ تھے۔ چاہے دشمن کم ہو یا زیادہ۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی رعایت نہیں دی۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا : اے نبی مومنوں کو جنگ پر ابھارو ، اگر تم میں بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔ یہ حکم اس وقت کے لیے تھا کہ حضور ﷺ ان کے پاس نہ ہوتے ، واللہ اعلم۔ ایسے حالات میں پہلے حکم یہ تھا کہ بیس دو سو سے مقابلہ کریں گے اور میدان چھوڑ کر نہ بھاگیں گے اور اگر دشمن اس تعداد سے زیادہ ہو تو پھر بہترین صورت میں حملے کے لیے پیچھے ہٹنا جائز ہوگا۔ لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا اور دوسری آیت نازل ہوئی۔ ” الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ : اچھا اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا ، اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے ، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو وہ تو دوہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے “

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ پہلے فرض یہ کیا گیا تھا کہ ایک آدمی دس سے نہیں بھاگے گا۔ پھر اسے کم کردیا گیا اور کہا گیا کہ الئٰن خفف اللہ عنکم و علم ان فیکم ضعفا : اچھا رب نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے۔

اب فرض یہ عائد ہوا کہ ایک صد دو صد سے نہ بھاگیں گے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اب حکم یہ ہے کہ اگر ایک شخص دو سے بھاگے تو یہ فرار ہوگا اور اگر کوئی تین کے مقابلے میں بھاگ جائے تو فرار نہ ہوگا۔ شیخ کہتے ہیں کہ یہاں فرار سے مراد وہ فرار ہے جو اس آیت میں مقصود ہے۔ ٓآیت نے یہ فرض کیا ہے کہ ایک آدمی دو کے مقابلے میں ڈٹ جائے گا اور اگر دو سے زیادہ تعداد ہو تو پھر مجاہد کے لیے دوبارہ جنگ کی تیار کی نیت سے اور فوج کے ساتھ ملنے کی غرض سے فرار جائز ہے۔ لیکن اگر ایک شخص ایسے غیر مسلم مسلمانوں کی طرف فرار کرتا ہے تو بھی وہ اس وعید کا مستحق ہوگا جو اس آیت میں وارد ہے۔ کیونکہ آیت میں حکم ہے : وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الا یہ کہ نگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں ہر مسلمان کے لیے دوسری فوج (فئہ) ہوں۔ حضرت عمر ابن الکطاب وک جب معلوم ہوا کہ ابو عبید ابن مسعود نے ایک لشکر کے ساتھ جنگ کی اور شہید ہوگئے لیکن بھاگے نہیں تو انہوں نے کہا ” اللہ ابو عبید پر رحم کرے اگر وہ میری طرف واپس آجاتا تو میں اس کے لیے دوسری فوج ہوتا۔ اور جب ابو عبید کے ساتھی واپس آئے تو حضرت عمر نے کہا میں تمہارے لیے دوسری فوج ہوں۔ آپ نے ان رپ کوئی سختی نہ کی اور نہ باز پرس کی۔ یہی حکم ہمارے ہاں ہے (یعنی حنفیہ کے نزدیک جب تک مسلمانوں کی فوج کی تعداد 21 ہزار تک نہیں پہنچ جاتی کیونکہ 21 ہزار کے لیے اپنے مقابلے میں ہٹنا جائز نہیں ہے۔ اگر ان کی تعداد دگنی ہو الا یہ کہ وہ جنتگی چال کے طور پر ایسا کریں جنگی چال یہ کہ وہ ایک مورچے سے دوسرے مورچے میں چلے جائیں ، یا کوئی دوسری چال اختیار کریں جس میں جنگ سے فرار کا عنصر نہ ہو۔ یا دوسری فوج اور یونٹوں سے ملیں۔ محمد ابن الحسن سے مذکور ہے کہ اگر فوج 21 ہزار تک پہنچ جائے تو اس پر فرض ہے کہ ہر صورت میں دشمن کا مقابلہ کرے۔ اس بارے میں حنفیہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حنفیہ نے حدی زہری سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے عبیداللہ ابن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے حضور سے یہ روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا : ” اچھے ساتھی چار ہیں اور اچھے فوجی دستے چار سو ہیں اور اچھے لشکر چار ہزار ہیں اور 21 ہزار افراد کے لشکر کو قلیل نہ سمجھا جائے گا اور نہ ہی وہ مغلوب ہوں گے “ بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں : ” کہ تم میں سے کوئی قوم بھی اگر 21 ہزار ہو تو مغلوب نہ ہوگی بشرطیکہ کہ اس میں اتحاد ہو “ امام طحاوی نے یہ نقل کیا ہے کہ امام مالک سے پوچھا گیا : ” کیا ہمارے لیے ایسے شخص کے خلاف جہاد و قتال سے رکنا جائز ہے جو احکام الہی کی پیروی نہیں کرتا اور اللہ کے سوا دوسروں کے احکام کے مطابق فیصلے کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر تمہارے جیسے 21 ہزار افراد موجود ہوں تو پیچھے ہٹنا منع ہے۔ اور اگر اس قدر افراد نہ ہوں تو تمہارے لی گنجائش ہے کہ قتال نہ کرو “۔ اور یہ سائل عبداللہ ابن عمر ابن عبدالعزیز تھے۔ ابن عبداللہ ابن عمر تھے۔ اور یہ بات اس رائے کے مطابق ہے جو محمد ابن الحسن سے نقل کی گئی۔ نبی ﷺ سے 12 ہزار کے بارے میں جو روایت ہے وہ اس موضوع پر اصل اور اصول ہے۔ اگرچہ کافروں کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ فرار اختیار کریں۔ اگرچہ وہ ان سے کئی گنا زیادہ ہوں کیونکہ حضور نے جو شرط لگائی ” اگر ان کے اندر اتحاد ہوـ تو اس سے حضور اکرم ان پر اتحاد کرنا فرض کردیا ہے۔

اس طرح ابن عربی نے بھی اپنی کتاب احکام القرآن میں یہ تفصیلات دی ہیں۔ انہوں نے اس حکم کے بارے میں یہ کہا ہے : اس بارے میں اختلاف ہے کہ جنگ کے میدان سے فرار کی ممانعت یوم بدر کے لیے مخصوص تھی یا قیامت تک یہی حکم ہے۔

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ یہ ممانعت یوم بدر کے ساتھ مخصوص تھی۔ کیونکہ اس دن کے لیے دوسری فوج صرف رسول اللہ کی ذات ہی تھی۔ یہی رائے نافع ، حسن ، قتادہ ، یزید ، ابن حبیب اور ضحاک کی ہے۔

” حضرت ابن عباس اور تمام دوسرے علماء سے یہ روایت ہے کہ یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے اور جن لوگوں نے اسے یوم بدر کے ساتھ مخصوص کیا ہے انہوں نے ومن یولہم یومئذ دبرہ سے استدلال کیا ہے کہ اس سے مراد بدر ہے حالانکہ یومئذ سے مراد یوم الزحف ہے یعنی مطلق جنگ کا دن۔

” اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیات یوم بدر کی قتال کے بعد نازل ہوئیں اور ان کے نزول کے وقت جنگ بدر ختم ہوچکی تھی۔ اور اس دن جو ہونا تھا ، وہ ہوچکا اور نبی صلی اللہ سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم حدیث نقل کر آئے کہ کبائر یہ ہیں۔ اور ان میں سے جنگ کے دن بھاگنے کو بھی شمار کیا گیا اور یہ اس مسئلہ پر نص صریح ہے جس کے بعد اختلاف رفع ہوجانا چاہیے اور ہم نے اس نکتے پر متنبہ کردیا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ اشکال پیش آیا کہ اس سے مراد یوم بدر ہے۔

ہمارے خیال میں ابن عربی نے تمام علماء کی جو رائے نقل کی ہے اور ابن عباس سے بھی وہی منقول ہے ، ہم بھی اسی کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جنگ کی صفوں سے بھاگ نکلنا ایک نہایت ہی برا فعل ہے اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تحریکی اعتبار سے بھی اور اعتقادی اور نظریاتی اعتبار سے بھی۔

اردو ترجمہ

جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری، الا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دُوسری فوج سے جا ملنے کے لیے، تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا، اُس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman yuwallihim yawmaithin duburahu illa mutaharrifan liqitalin aw mutahayyizan ila fiatin faqad baa bighadabin mina Allahi wamawahu jahannamu wabisa almaseeru

مومن کا دل و دماغ نہایت ہی پختہ ہونا چاہیے ۔ اس طرح کہ وہ زمین کی کسی بھی قوت کے سامنے متزلزل نہ ہو اور اس کا رابطہ ایسی قوت کے ساتھ ہونا چاہیے جسے اپنے امور پر مکمل کنٹرول حاصل ہو اور وہ بندوں کے اوپر مکمل غلبہ رکھتی ہو اور جب کسی مومن کا دل و دماغ خطرات کو دیکھ کر متزلزل ہوگیا تو یہ تزلزل فرار پر منتج نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ موت کے ڈر سے پیٹھ پھیرے۔ یہ حکم ایسا نہیں ہے کہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم دیا جا رہا ہے ، کیونکہ مومن بھی انسان ہے اور اس کا دشمن بھی انسان ہے۔ اس لحاظ سے وہ گویا ایک ہی سطح پر کھڑے ہیں۔ پھر مومن کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ربط ایسی قوت کے ساتھ ہے جس پر کوئی غالب نہیں ہے۔ اگر وہ زندہ ہے تو پھر وہ اللہ کا بندہ ہے اور اسی طرف متوجہ ہے اور اگر مر گیا تو بھی اللہ کی طرف لوتنے والا ہے۔ اگر اس کے لیے شہادت رکھ دی گئی ہے تو بھی وہ اس پوزیشن سے بہت اچھی ہے ، جو اس کے دشمن کی ہے کیونکہ دشمن تو اللہ اور رسول اللہ کے مقابلے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قطعی حکم دیا جاتا ہے۔ وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الا یہ کہ نگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت بری جائے باز گشت ہے۔

۔۔۔ یہاں قرآن کریم نے جو اسلوب گفتگو اپنایا ہے اس میں بہت سے اشارات ہیں۔ فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ ۔ اوروَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ۔ یہ در اصل ہزیمت اور شکست کی حسی تعبیر ہے اور نہایت ہی حقارت آمیز نقشہ دیا گیا ہے بھاگنے والوں کا۔ اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ دشمن کو منہ دکھانا چاہیے مقعد نہیں۔ پھر فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ گویا شکست کھانے والا در اصل پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے ساتھ غضب الہی ہوتا ہے اور یہ غضب الہی اسے جہنم تک لے جاتا ہے جو برا ٹھکانا ہے۔ وماواہ جہنم وبئس المصیر۔ یوں انداز کلام میں بھی جنگ کے دن پیٹھ پھیرنے کی منظر کشی اس طرح کی گئی ہے جس سے اس فعل کی قباحت اور کراہت بالکل واضح معلوم ہوتی ہے اور کوئی غیرت مند شخص اسے پسند نہیں کرتا۔

جنگ کے دن پیٹھ پھیرنے کی ممانعت کے بعد اب سیاق کلام میں یہ حقیقت بتائی جاتی ہے کہ اس معرکے کے پیچھے در اصل دست قدرت کام کر رہا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے دشمنوں کو قتل کیا۔ وہی ہے جو تمہارے تیر کو درست نشانے پر پہنچاتا ہے۔ اور تمہیں جو اجر دیا جاتا ہے وہ تو محض اس لیے ہے کہ اہل ایمان اس آزمائش میں کامیاب رہے اور انہوں نے جدوجہد کی اور اللہ نے ان کو اس ثواب کا مستحق بنایا اور اجر عطا کیا۔

178