اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت ” نمبر 142 تا 144۔
یہ مویشی جن کے بارے میں تنازعہ چل رہا ہے اور جن کے بارے میں آیت سابقہ میں یہ کہا گیا کہ یہ صرف اللہ کی مخلوق ہے ان کے آٹھ سیٹ ہیں لفظ ” ازواج “ اس وقت بولا جاتا ہے جب نر اور مادہ دونوں ہوں ‘ زوج کے معنے جوڑا ‘ ایک جوڑا بھیڑوں کا اور ایک بکریوں کا ۔ سوال یہ ہے کہ ان کو اللہ نے کن لوگوں پر حرام قرار دیا ہے ؟ یا انکے پیٹ میں جو جنین ہیں ان کے بارے میں حرمت کا حکم کہاں ہے ؟ـ اگر تم سچے ہو تو بناؤ۔
آیت ” نَبِّؤُونِیْ بِعِلْمٍ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ (143) اس لئے کہ حلال و حرام کے فیصلے محض ظن وتخمین سے تو نہیں ہو سکتے نہ ہی اٹکل بچو سے اس معاملے میں کوئی فتوی دیا جاسکتا ہے ۔ نہ اس بارے میں معلوم اور مسلم سند کے بغیر کوئی قانون بنایا جاسکتا ہے ۔
باقی جوڑے نر اونٹ اور مادہ اونٹ ‘ بیل اور گائے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ انکے بارے میں حلال وحرم کا حکم کہاں ہے ؟ یا ان کے جنین کے بارے میں حکم کہاں ہے اور کس نے دیا ہے ؟
آیت ” أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ وَصَّاکُمُ اللّہُ بِہَـذَا “۔ (6 : 144) ” کیا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم دیا تھا ؟ “
یعنی تم حاضر تھے اور تم اس بات کے گواہ ہو کہ اللہ نے اس کا حکم تمہیں دیا ہے ۔ اس لئے کہ کوئی چیز حلال و حرام تو صرف اللہ کے حکم سے ہوسکتی ہے اور حکم بھی یقینی ہو ۔ محض ظن وتخمین سے اس معاملے میں بات نہیں ہو سکتی ۔
اس آیت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ قانون ساز صرف اللہ ہے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ جو قانون بناتے ہیں وہ قانون الہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ فورا ان کو متنبہ کرتے ہیں ۔
آیت ” فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً لِیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (144)
” پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی راہنمائی کرے یقینا اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۔ “
اس شخص سے بڑا ظالم اور کوئی نہیں ہے جو از خود قانون بنا کر اسے اللہ کا قانون بتلاتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ شریعت ہے ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کالانعام کو گمراہ کرے ۔ ایسا شخص لوگوں کو محض ظن کی طرف بلاتا ہے جبکہ ایسے لوگوں کے لئے ہدایت کی راہ مسدود ہوچکی ہے ۔ انہوں نے غلط راہ کو اپنا لیا ہے اور اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرکے ظلم کا ارتکاب کیا ہے اور کسی ظالم کو اللہ راہ ہدایت نہیں دیتا ۔
اب جبکہ ان کے متعقدات ‘ تصورات اور ان کی عملی رسومات کے بودے پن کو ظاہر کردیا گیا اور یہ ثابت کردیا گیا کہ یہ سب کچھ محض وہمی ہے اور بےاصل ہے ‘ اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ ان کے تصورات اور عقائد کسی علم و دلیل پر مبنی نہیں ہیں اور یہ کہ مویشیوں اور فصلوں کے بارے میں جو تصورات اور رسومات وہ رکھتے ہیں وہ یا تو انہوں نے از خود گھڑ لیے ہیں اور یا ان کے شیاطین نے ان پر القاء کئے ہیں حالانکہ یہ مویشی اور یہ فصل اور پھول پھل ان کے پیدا کردہ نہیں ہیں ۔ یہ تو اللہ کی تخلیق کے کمالات ہیں لہذا حاکمیت اور عبارت سب کی سب اللہ کے لئے مخصوص ہونی چاہیے ۔ اس لئے کہ مخلوق اس کی ہے ‘ رزق اس کا ہے اور لوگوں کو ہر قسم کے مال اس نے دیئے ہیں۔
اب اس تمہید کے بعد اللہ تعالیٰ بتلاتے ہیں کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو اللہ نے حرام کی ہیں ۔ اور وہ چیزیں اللہ نے سچائی اور دلیل کی اساس پر حرام کی ہیں ‘ محض وہم و گمان کی بنا پر نہیں۔ کیونکہ اللہ وہی ذات ہے جس کو حاکمیت کا حق حاصل ہے ‘ جسے قانون سازی کا حق ہے ۔ یہ اللہ ہی کا منصب اور مقام ہے کہ وہ جس چیز کو حلال کرے اور وہ حلال ہے اور جس کو حرام کرے تو وہ حرام ہے ۔ اس کام میں کوئی انسان نہ شریک ہے اور نہ کوئی اس میں کسی قسم کی مداخلت کرسکتا ہے ۔ اللہ کی حاکمیت اور اس کی قانون سازی پر کوئی نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ۔ موقعہ کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں وہ چیزیں بھی گنوا دیں جو یہودیوں پر حرام تھیں اور مسلمانوں کے لئے حلال کردی گئیں ‘ اس لئے کہ وہ یہودیوں پر بطور سزا حرام کی گئی تھیں کیونکہ وہ ظلم وشرک میں مبتلا ہوگئے تھے اور اللہ کی شریعت سے دور ہوگئے تھے ۔
آیت ” نمبر 145 تا 146۔
” ابن جریر طبری لکھتے ہیں ” اللہ اپنے نبی سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں اے محمد ! ان لوگوں سے یہ کہہ دیں جنہوں نے اللہ کی پیدا کردہ فصلوں اور مویشیوں میں ایک حصہ اللہ کے لئے مخصوص کردیا ہے اور ایک حصہ اپنے ان معبودوں کے لئے مخصوص کردیا ہے جو خود انہوں نے اللہ کے شریک قرار دیئے ہیں ۔ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مویشی اور یہ فصل اور لوگوں کے ممنوع ہے اور اسے صرف وہی لوگ استعمال کرسکتے ہیں جن کے بارے میں ہم چاہیں یہ قانون وہ بزعم خود بناتے ہیں جو بعض جانوروں پر بار برداری کو حرام کرتے ہیں اور بعض جانور ایسے ہیں جن پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا جائز نہیں سمجھتے ۔ وہ بعض جانوروں کے پیٹ میں جنین کو اپنی عورتوں اور بیویوں کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور مردوں کے لئے حلال قرار دیتے ہیں ۔ وہ اللہ کے پیدا کردہ بعض دوسرے ارزاق کو حرام قرار دیتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ یہ قوانین و ضوابط اللہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ ان کے یہ کام شرک کے زمرے میں آتے ہیں ۔ ان سے پوچھو ! کہ آیا اللہ کی جانب سے کوئی رسول آیا تھا جس نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا تو بتاؤ وہ کون سا رسول تھا یا اللہ نے جب ان چیزوں کو حرام قرار دیا تو تم خود اس مجلس میں موجود تھے ۔ تم نے خود اللہ سے سنا ہے کہ یہ چیزیں حرام ہیں۔ اگر تم ایسا دعوی کرو تو بادی النظر میں یہ جھوٹا ہوگا اور تم عقلا ایسا دعوی کر ہی نہیں سکتے ۔ اگر تم ایسا دعوی کرو تو تمام جہان تمہاری تکذیب کر دے گا ۔ رہا یہ میرا معاملہ ‘ تو میرے اوپر جو کتاب قرآن نازل ہو رہی ہے اس میں کسی شخص پر کوئی ایسی چیز حرام نہیں ہے جس کو تم حرام قرار دیتے ہو اور بزعم کود ” تم “ حرام قرار دیتے ہو ۔ میرے اوپر اللہ نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں کہ کوئی جانور مردار ہوگیا ہو ‘ بغیر ذبح کے مر گیا ہو یا بہایا ہوا خون ہو ‘ یا خنزیر کا گوشت حرام ہے اس لیے کہ یہ ناپاک ہے ‘ یا وہ گوشت جو فسق کا ہو ‘ مثلا وہ ذبیحہ جو مشرکین بتوں پر ذبح کرتے ہیں ‘ اپنے بتوں اور آستانوں پر اور ان پر بتوں کا نام لیا گیا ہو ‘ یہ ذبح اسلام میں فسق تصور ہوتا ہے ‘ اسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور ایسا کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ یہ مردار تصور ہوتا ہے اور اس کا کھانا حرام ہے ۔ “
یہ اللہ کی جانب سے اعلان ہے ان مشرکین کے لئے جو حضور اکرم ﷺ کے ساتھ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ مردار کی حلت و حرمت کے مسئلے میں مجادلہ کرتے تھے کہ وہ جن چیزوں میں مجادلہ کرتے ہیں ان میں سے بعض اشیاء تو حرام ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور بعض اشیاء حلال ہیں جنہیں اللہ نے قرار دیا ہے ۔ ان حلال چیزوں کی حرمت کی نسبت جو وہ اللہ کی طرف کرتے ہیں اس میں وہ جھوٹے ہیں ۔ ابن جریر آیت (فمن اضطر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) کی تفسیر میں کہتے ہیں : ” اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے مردار ‘ خون ‘ لحم خنزیر یا بتوں کے نام پر ذبح ہونے والے جانوروں کو حرام قرار دیا لیکن اگر کوئی اس کے کھانے پر مجبور ہوجائے ‘ بطور حکم عدولی نہ کھا رہا ہو اور یہ نہ ہو کہ حالت اضطرار میں نہ ہو اور اسی طرح وہ جان بوجھ کر حدود سے تجاوز نہ کر رہا ہو اور حد ضرورت کے اندر کھا رہا ہومثلا صرف اس قدر کھا رہا ہو کہ اس کی زندگی بچ جائے ‘ اس سے زیادہ نہ کھا رہا ہو تو اس قدر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ بیشک اللہ غفور ورحیم ہے اور وہ اس کی پردہ پوشی کرنے والا ہے ۔ اس پر اس کو کوئی سزا نہ ہوگی اور گناہ بخش دیا جائے گا ‘ یہ ہے مفہوم غفور کا ۔ اور رحیم اس لئے ہے کہ اس نے لوگوں پر رحم کرکے بوقت مجبوری جواز کا حکم دیا ۔ ورنہ اگر وہ چاہتا تو وہ ان چیزوں کے استعمال کو ہر حال میں حرام کردیتا۔ “
رہی وہ مقدار جو ان چیزوں سے کھائی جاسکتی ہے تو اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلافات ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ وہ صرف اسی قدر کھائے گا جس سے جان بچ جائے ‘ دوسری رائے یہ ہے کہ بقدر کفایت اور سیر ہوجانے تک کھا سکتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ایک بار کھانے کے علاوہ دوسرے اوقات مجبور کے لئے ذخیرہ بھی کرسکتا ہے ۔ اگر اسے یہ ڈر ہو کہ آئندہ بھی رزق حلال نہ ملے گا ‘ مین ان اختلافات کی تفصیلات میں نہیں جاتا ۔ اس موضوع پر اسی قدر کافی ہے ۔
رہے یہودی تو ان پر وہ تمام جانور حرام کردیئے گئے تھے جن کے ناخن تھے ۔ یعنی وہ تمام حیوانات جن کے پاؤں پھاڑے ہوئے نہیں ہیں مثلا اونٹ ‘ شترمرغ ‘ مرغابی اور بطخ ۔ ان پر گائے اور بکریوں کی چربی بھی حرام کردی گئی تھی ‘ صرف پیٹھ کی چربی جائز تھی یا وہ چربی جو آنتوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی یا جو ہڈیوں سے ملی ہوئی تھی ۔ یہ چیزیں ان پر بطور سزا حرام کی گئیں اور یہ سزا ان کو اس بغاوت کے نتیجے میں دی گئی جو وہ اللہ کے احکام اور قوانین سے کرتے تھے ۔
آیت ” وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِکَ جَزَیْْنَاہُم بِبَغْیِہِمْ وِإِنَّا لَصَادِقُونَ (146)
ٍ ” اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجر اس کے کہ جو ان کی پیتھ یا آنتوں سے لگی ہوئی ہو ‘ یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی ‘ اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں “۔
قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ وہ سبب بتا دیا جس کی وجہ سے ان پر یہ چیزیں حرام کردی گئی تھیں اور یہ حرمت یہودیوں کے ساتھ مخصوص تھی اور یہی حقیقی سبب تھا ۔ وہ سبب نہ تھا جو وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل یعنی حضرت یعقوب نے خود اپنے اوپر یہ چیزیں حرام کرلی تھیں اور اسرائیل کی اطاعت میں یہ لوگ بھی بدستور ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کئے ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اشیاء حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے لئے مباح اور حلال تھیں یعنی ان کے بعد جب انہوں نے سرکشی اختیار کی تو ان پر اللہ نے ان چیزوں کو حرام کردیا اور یا انہیں سزا دی ۔